کراچی میں سیاست، ریاست ڈوب گئی‎

عوام سب سے تنگ ہے اور کوئی بھی چنگاری اس ملک میں آگ لگا سکتی ہے۔ اس لیے مسائل حل کریں سیاست مت کریں۔

جب سیلاب آ گیا تو ان تمام پارٹیوں کے ایم پی اے ٹیلیفون لے کر باہر نکل آئے اور سیلفیوں کا مقابلہ شروع ہو گیا(اے ایف پی)

کراچی پر بات کرنے سے پہلے ایک اور بات آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ اس کا بلاواسطہ تعلق کراچی سے ہے۔

پچھلے دنوں وزیر ہوابازی نے ملک کے پائلٹوں کے لائسنسوں کو جعلی قرار دیا اور اس پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا مگر آج بھی وزیر کے عہدے پر برقرار ہیں بلکہ وزیراعظم سے شاباش بھی لے چکے ہیں۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

اب یہ بات ہو رہی ہے کہ اس ملک کے ڈاکٹر بھی اخلاقیات اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے عاری ہیں۔ اس ملک کے چوٹی کے ڈاکٹروں اور لیبارٹریوں نے کچھ بااثر مریضوں کِی رپورٹوں کی تصدیق کی۔ اب حکومت اور حزب اختلاف دونوں اس بات کو ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ ان ڈاکٹروں کی رائے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور انہوں نے قوم سے جھوٹ بولا ہے۔

ڈاکٹر ہی نہیں لوگ کئی سو ارب روپے سے بننے والے اسلام آباد ائرپورٹ اور پشاور بی آر ٹی کی وہ تصاویر بھی ایک دوسرے کو بھیج رہے ہیں جن میں چھتیں بارش میں تباہ ہو گئی اور نئی بسیں خراب ہو چکی ہیں۔ یعنی پائلٹ، ڈاکٹر اور انجینرز صحیح کام نہیں کر رہے۔

ججوں کا حال پہلے ہی آپ کے سامنے ہے۔ جرنیلوں سے ان کی کارکردگی پوچھو تو فوج دشمن ہونے کا الزام لگ جاتا ہے۔ اگر یہ سب اپنے فرائض میں کوتاہی کر رہے ہیں تو کیا موسمی ادارے کے لوگوں میں قابلیت ہے یا ان کے پاس آلات ہیں کے ہمیں بتا سکیں کتنی بارش ہوگی۔ اب ہم کراچی پر بات کرتے ہیں۔

سب سے پہلے میں کراچی کے لوگوں کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کا خیال رکھا۔ ایک ویڈیو میں عوام پولیس کو بچاتی نظر آئی۔ امید ہے انہیں یہ منظر یاد رہے گا۔ ایدھی، سیلانی اور دوسرے فلاحی اداروں نے بھی بڑھ چڑھ کر عوام کی خدمت کی۔

کراچی کی بارش میں صرف شہر نہیں ڈوبا بلکہ اس ملک کی سیاست عمومی طور پر اور پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی سیاست بھی ساتھ ڈوب گئی۔ مگر صرف سیاست نہیں ڈوبی یہ ریاست بھی اس میں تباہ ہو چکی ہے۔

شدید قدرتی آفات کو سنبھالنا بعض دفعہ کسی حکومت اور ریاست کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ انڈونیشیا کی سونامی اور 2005 کا پاکستان کا زلزلہ اتنا اچانک آیا کے کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔ مگر بارش وہ قدرتی آفت ہے کہ اس کا ہمیں کئی دن پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ مشکل آنے والی ہے۔

اتفاق یہ ہے کہ جس وقت کراچی میں شدید بارش ہوئی اسی وقت امریکہ کی ریاست ٹیکساس اور لویزیانا میں سمندری طوفان آیا جو اتنا ہیبت ناک تھا کہ ہوا کی رفتار 230 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ طوفان کے آنے سے کئی دن پہلے میئر، محکمہ موسمیات اور صوبے کے گورنر نے کئی مرتبہ بریفنگ کا انتظام کیا۔ موسمی رپورٹ ہر گھنٹہ میں نشر کی گئی۔

منتخب حکومت اور ریاستی اداروں نے عوام کو اطلاع دی کہ انہیں کیا احتیاطی تدابیر کرنی ہیں۔ شہر کے کون سے علاقے ہیں جہاں شدید سیلاب کا خطرہ ہے۔ غرض یہ کہ حکومت اور عوام نے مل کر اس طوفان کا سامنا کیا۔ خامیاں ان میں بھی ہیں مگر کوشش ضرور کرتے ہیں۔

 مگر ہمارا کیا حال ہے۔ تینوں پارٹیاں ایک دوسرے کو الزام دے رہی ہیں۔ بارش کئی دن سے ہو رہی ہے اور ان دنوں میں ہر سال ہوتی ہے مگر مجال جو ان کو کوئی فرق پڑا ہو۔ ریاستی ادارے کے ڈی اے، کے ایم سی، کے ڈبلو ایس بی، محکمہ موسمیات اور ضلعی انتظامیہ سب سوتے رہے۔

جب سیلاب آ گیا تو ان تمام پارٹیوں کے ایم پی اے ٹیلیفون لے کر باہر نکل آئے اور سیلفیوں کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ ریاستی ادارے کہاں ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم۔ آج عوام کو بتایا جائے کہ ان اداروں میں کتنے ہزار لوگ کام کرتے ہیں اور انہیں تنخواہ کس کام کی دی جاتی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر سارا کام این ڈی ایم اے نے کرنا ہے تو ان باقی اداروں کو بند کر دیں۔ وفاقی حکومت اور فوج سے میری استدعا یہی ہے کہ کراچی کے حالات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بجائے اور کوئی بھی اقدام یکطرفہ کرنے کی بجائے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر قدم اٹھایا جائے۔ عوام سب سے تنگ ہے اور کوئی بھی چنگاری اس ملک میں آگ لگا سکتی ہے۔ اس لیے مسائل حل کریں سیاست مت کریں۔

آپ میری اس بات کو سنجیدہ نہیں لیتے مگر میں آپ کو ہر بار یاد دلاتا رہوں گا کہ یہ جمہوریہ بوسیدہ ہو چکی ہے۔ یہاں سیاست اور ریاست عوام سے لاتعلق نظر آتی ہے۔

قیصر بنگالی صاحب نے کالم لکھا کہ کراچی شہر کے کچھ اداروں کو مزید اداروں میں بانٹ دیا جائے تو وہ بہتر کام کریں گے۔ یہ حل نہیں ہے۔ ڈان نے اداریہ لکھا کے بلدیاتی ادارے حل ہیں۔ بلدیہ تو کراچی میں آج ختم ہوئی ہے مگر میئر صاحب چار سال بعد روئے کہ ان کے پاس تو اختیار ہی نہیں تھا جبکہ عوام روز روتے رہے کے کچھ کرو یا چھوڑ دو۔

کراچی میں وفاق، صوبائی اور بلدیاتی تینوں حکومتیں بری طرح ناکام ہوئیں جس کا مطلب ہے مسئلہ ان سیاسی پارٹیوں اور نظام میں ہے۔ ایم کیو ایم کو ایک دفعہ پھر یاد آ گیا کہ انہیں الگ صوبہ چاہیے۔ یہ پارٹی کئی دفعہ کراچی کی میئر رہی اور ہر وفاقی حکومت کی اتحادی مگر کچھ کام نہ کیا۔ تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کے صوبہ بننے کے بعد کراچی دبئی بن جائے گا۔

کراچی منی پاکستان ہے۔ حل یہ ہے کہ جب تک پاکستان کو نئے سرے سے منظم نہیں کیا جائے گا اور نظام کی خرابیوں کو دور کیا جائے گا حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ