افغان طالبان کا وفد کوئٹہ میں، کل قطر واپسی متوقع

ملا عبد الغنی برادر کی سربراہی میں افغان طالبان کا چھ رکنی وفد حکومت پاکستان کی دعوت پر 24 اگست کو اسلام آباد پہنچا تھا۔

25 اگست کو  افغان طالبان کی دفتر خارجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت عسکری حکام سے ملاقات ہوئی تھی۔(تصویر: وزارت خارجہ)

پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ملا عبد الغنی برادر کی سربراہی میں افغان طالبان کا چھ رکنی وفد اسلام آباد میں اہم ملاقاتوں کے بعد اب کوئٹہ شہر میں اپنی چند غیرسرکاری ملاقاتوں کے لیے موجود ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان بھی طالبان وفد کے ہمراہ کوئٹہ میں موجود ہیں۔

کوئٹہ میں ہونے والی غیر سرکاری ملاقاتوں کے لیے طالبان وفد کی جانب سے درخواست کی گئی تھی جسے پاکستان نے قبول کیا۔ 

یہ وفد جمعے کی شام اسلام آباد پہنچے گا اور پھر واپس قطر روانہ ہو جائے گا۔ یہ افغان طالبان کا ایک سال میں پاکستان کا دوسرا دورہ ہے۔

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کا چھ رکنی وفد 24 اگست کو اسلام آباد پہنچا تھا اور 25 اگست کو ان کی دفتر خارجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت عسکری حکام سے ملاقات ہوئی تھی۔ پاکستان نے سرکاری طور پر صرف اسی ملاقات کے بارے میں باضابطہ کوئی بیان جاری کیا تھا۔

طالبان وفد کی پاکستان کے خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید سے بھی ملاقات ہوئی۔

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر آصف درانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: 'یہ خوش آئند ہے کیونکہ امریکہ طالبان مذاکرات میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے وہ مذاکرات کامیاب ہوئے اور معاہدہ طے پایا گیا۔ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات میں پاکستان کسی کو ہدایات نہیں دے سکتا لیکن مذاکرات کے لیے سہولت ضرور فراہم کر سکتا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'اس سلسلے میں چند روز قبل وزیراعظم پاکستان عمران خان اور افغانستان کی ہائی کونسل برائے قومی مصالحت کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللّٰہ عبداللّٰہ کےدرمیان ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا تھا، جس میں عبداللہ عبداللہ نے بھی بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہونے کا عندیہ دیا ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے بعد جاری بیان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے شدہ معاہدے کے لیے پاکستان کی کوششوں کا ذکر کیا اور فریقین کو قیام امن کے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ 'افغان وفد کے ساتھ بہت مثبت، تعمیری اور دوستانہ ماحول میں بات ہوئی۔ افغان وفد کے پاکستان کے بارے میں بہت مثبت خیالات  ہیں اور پاکستان نے جس انداز سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی، طالبان وفد اس کا معترف ہے۔'

وزیر خارجہ نے کہا کہ 'پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں ہے۔ طالبان وفد کے ساتھ مذاکرات میں اکتوبر 2019 سے لے کر اب تک کے حالات کا احاطہ کیا گیا ہے اور طالبان وفد دوحہ معاہدے پر مکمل کاربند ہے۔'

اس سے قبل طالبان ترجمان سہیل شاہین کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ 'منگل کو ہونے والے مذاکرات میں پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے مسائل، ان کے سفری دستاویزات کے مسئلے اور پاکستان افغان تجارت کے امور پر بات چیت کی گئی۔'

دفتر خارجہ میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان میں قید افغان باشندوں کی رہائی کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی جبکہ سہیل شاہین کے مطابق معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا جبکہ دیگر کی سزاؤں میں کمی کی جائے گی۔

پاکستان اور طالبان کے درمیان ان ملاقاتوں کو بین الافغان مذاکرات کے تناظر میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ابھی کابل انتظامیہ کے ساتھ اس بات چیت کی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی ہے لیکن منتظمین اس کی جلد توقع کر رہے ہیں۔

طالبان وفد نے یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب حال ہی میں اسلام آباد نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر سمیت افغان طالبان کے سینیئر رہنماؤں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر یہ پابندیاں 18 اگست کو منظور کی گئیں لیکن انہیں جمعہ (21 اگست) کی شام کو منظر عام پر لایا گیا تھا۔ جن افراد پر پابندیاں عائد کی گئیں، ان میں طالبان کے چیف امن مذاکرات کار ملا عبد الغنی برادر، ان کے نائب شیر محمد عباس ستانکزئی اور افغان طالبان کے نائب سربراہ سراج الدین حقانی کے نام شامل ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان