چترال سیلاب: 'سپلائی لائن بہہ گئی، نالے کا پانی پیتے ہیں'

لوئر چترال کے علاقے ریشن میں 28 اگست کو آنے والے سیلاب سے گھر اور فصلیں تباہ ہو گئیں۔ رہائشیوں کو شکایت ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں آئی اور وہ نالے کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے علاقے ریشن کی رہائشی دولت جمالہ کی عمر 55 سال ہے۔  جب گھر میں پینے اور دیگر ضروریات کے لیے پانی نہیں ملتا تو وہ قریبی برساتی نالے پر جا کے دیگر خواتین کے ساتھ گندہ پانی مٹکوں میں بھر کے لاتی ہیں۔ 

یہی پانی پینے سمیت دیگر ضروریات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پانی کا یہ مسئلہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب اسی علاقے میں 28 اگست کو ہونے والی بارشوں کی وجہ سے قریبی برساتی نالے میں اونچے درجے کا سیلاب آیا تھا۔

بالٹی کو برساتی نالے سے بھرتے ہوئے دولت جمالہ نے دکھ بھری آواز میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پانی کی سپلائی لائن بھی بہہ گئی ہے جس کے بعد ہر گھر میں پانی نایاب ہو چکا ہے۔

جمالہ نے بتایا: 'سیلاب کی وجہ سے گھر میں راشن ہے نہ پینے کے لیے صاف پانی، سیلاب کی وجہ سے کربلا جیسا منظر ہے۔ یہاں قریب گاؤں کے لیے سپلائی لائن بنائی گئی تھی، اسے بھی سیلاب نے نہیں بخشا۔'

جمالہ بالٹی نما مٹکا بھرتی تھیں اور ان کے گھر کی دیگر خواتین جو ان کے ساتھ اسی نالے گئی تھیں، وہی مٹکے گھر لے کر چلی جاتی تھیں جب کہ گھر کا ایک مرد مٹکے لے جانے میں ان کی مدد کر رہا تھا۔ 

یہی حالات  ہر سیلاب زدہ گھر میں ہیں۔ جس برساتی نالے نے ان کے گھروں کو تباہ کیا، اسی سے یہ لوگ پانی لانے پرمجبور ہیں۔

جمالہ نے بتایا کہ سیلاب کو کئی دن ہوگئے لیکن انہیں پوچھنے حکومت کا کوئی اہلکار نہیں آیا ہے، راشن نہ پانی کا بندوبست کیا گیا۔

'نالے کا پانی پینے سے امراض پھیلنے کا خدشہ'

آغا خان فاؤنڈیشن سمیت الخدمت کے رضاکار سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مدد کے لیے موجود ہیں۔

آغا خان فاؤنڈیشن کی جانب سے تباہ شدہ مکانات کے قریب ایک میڈیکل کیمپ لگایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی کیمپ میں موجود فیلڈ آفیسر شاہدہ زاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہم نے ہنگامی بنیادوں پر ریلیف کا کام شروع کیا ہے اور جب ہمیں پتہ چلا کہ یہاں لوگ برساتی نالے کا پانی پینے پر مجبور ہیں تو یہاں ہم نے میڈیکل کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔'

زاہدہ نے بتایا: 'ان لوگوں کا برساتی نالے سے پانی پینا نہایت خطرناک ہے اور اس سے مختلف پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسا کہ پیچش، ہیضہ اور ٹائیفائڈ پھیلنے کا خدشہ ہے۔'

زاہدہ نے بتایا کہ 'ایک اور مسئلہ اسی سیلاب کی وجہ سے ہم نے خواتین میں نوٹ کیا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہوتی جا رہی ہیں اور مختلف خواتین مجھے ملیں جو یہی شکایت کر رہی تھیں۔'

ضلعی انتظامیہ کی 29 تاریخ کی رپورٹ کے مطابق ریشن کے برساتی نالے میں اب پانی کی مقدار کم ہوگئی ہے اور مزید کسی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ اسی سیلاب کی وجہ سے اپر اور لوئر چترال کو ملانے والا مستج روڈ پر بنا پل بھی بہہ گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تحصیل انتظامیہ اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے ذریعے متاثرہ علاقوں کو پانی پہنچایا جا رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندہ نے جب مشاہدہ کیا تو اس متاثرہ علاقے میں پانی سپلائی کا کوئی بندوبست نہیں تھا اور زیادہ تر لوگ اسی برساتی نالے سے پانی لاتے ہوئے دیکھے گئے۔

اسی علاقے کی ایک رہائشی خاتون فرزانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خواتین کو پانی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ مشکلات ہوتی ہیں کیونکہ گھر میں برتن اور کپڑے وغیرہ دھونے کے لیے بھی پانی موجود نہیں ہوتا۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی تک کسی بھی قسم کی مدد کے لیے کوئی حکومتی اہلکار نہیں آیا ہے۔

اس علاقے کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پانی کی ایک سپلائی لائن بھی لگائی تھی جو چشموں سے پانی گھروں کو سپلائی کرتی تھی لیکن وہ لائن بھی سیلاب کی نذر ہو چکی ہے۔

ہم نے دیکھا کہ اہل علاقہ اسی لائن کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کھدائی میں مصروف تھے اور اپنی مدد آپ کے تحت وہی لائن دوبارہ بنا رہے تھے۔

ریشن اور سیلاب

اپر چترال کا یہی ریشن علاقہ 2010، 2015, اور 2019 کے سیلاب میں بھی متاثر ہوا تھا اور بہت سے لوگوں نے ان سیلابوں میں متاثرہ گھروں کو حال ہی میں دوبارہ تعمیر کیا تھا جو ایک بار پھر سیلاب کی زد میں آ گئے۔ 

ریشن کا علاقہ لوئر چترال کے مرکزی بازار سے تقریباً ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ برساری نالے کے دونوں اطراف میں مقامی لوگوں کی فصلیں ہیں اور انہی فصلوں سے متصل ان کے گھر بنے ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان