چترال: ’نیا گھر بنایا تھا وہ بھی سیلاب میں بہہ گیا، رات پہاڑوں پر گزاری‘

چترال کے علاقے ریشن میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں ایسے گھر بھی تباہ ہوگئے جو لوگوں نے 2019 کے سیلاب کے بعد بنائے تھے اور رہائشیوں کو سیلاب والی رات پہاڑوں پر گزارنی پڑی۔

خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع چترال کے علاقے ریشن میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں ایسے گھر بھی تباہ ہوگئے جو لوگوں نے 2019 کے سیلاب کے بعد بنائے تھے اور رہائشیوں کو سیلاب والی رات پہاڑیوں پر گزارنی پڑی۔

 پشاور سے تقریباً 10 گھنٹے کی مسافت پر واقع اپر چترال کے اس گاؤں کے تقریباً 100 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ خضرو خان بھی ان متاثرین میں سے ایک ہیں جن کا گھر جمعرات کی شب کو آنے والے سیلاب میں مکمل طور پر بہہ گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی مشکلات کے بارے میں بتاتے ہوئے خضرو نے بتایا کہ وہ رات کے وقت سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ سیلاب آگیا اور اپنے گھر والوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے قریب ہی پہاڑی پر چھڑ گئے۔

خضرو نے بتایا: ’وہ رات بہت کھٹن تھی۔ اپنے گھر کو تباہ ہوتے اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ رات پہاڑی میں گزاری اور اگلے دن گھر کے قریب ہی ٹینٹ لگا دیا اور وہاں پر سامان منتقل کر دیا۔‘

ٹینٹ میں اپنے بچے کچے سامان کو رکھتے ہوئے خضرو نے بتایا کہ گھر کے  قریب انہوں نے مکئی کی فصل لگائی تھی جو مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ 

خضرو کی اہلیہ اور بچے اسی ٹینٹ میں ان کے ساتھ موجود تھے۔ خواتین برتنوں کو صاف کرنے میں مصروف تھیں جبکہ بچے ہمیں دیکھ کر خوش ہو رہے تھے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم حکومت کے کوئی نمائندے ہیں اور اب ان کے مسائل حل کریں گے۔

خضرو نے بتایا: ’تین دنوں سے ہم اسی ٹینٹ میں رہ رہے ہیں لیکن کسی بھی حکومتی اہلکار نے نہیں پوچھا ہے اور نہ کھانے یا پانی کا کوہی بندوبست کیا ہے۔‘

حالیہ سیلاب سے پہلے اسی علاقے میں 2010، 2015، اور پھر 2019 میں بھی سیلاب آئے تھے اور پورے علاقے میں گھروں کو بہا کر لے گئے تھے۔ رہائشیوں نے اپنے تباہ شدہ گھر واپس بنائے مگر اس سال سیلاب ان نئے گھروں کو بھی بہا کر لے گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیلاب سے انفراسٹرکچر کو کافی نقصان پہنچا ہے تاہم ضلعی انتظامیہ کے مطابق کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

گھروں کے علاوہ اپر اور لوئر چترال کو ملانے والا رابطہ پل بھی سیلاب کی وجہ سے بہہ گیا ہے اور دونوں علاقوں کا رابطہ بالکل منقطع ہے۔

اس سے قبل بھی سیلاب میں بہہ جانے کے بعد اس پل کو 2018 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تاہم حالیہ سیلاب کے آگے نہ ٹک سکا۔

دونوں علاقوں کو ملانے کے لیے سماجی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک جھولا اور ایک لکڑیوں کا عارضی پل نالے پر تعمیر کیا گیا ہے جس کو لوگ امدورفت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

الخدمت فاؤنڈیشن اپر چترال کے سربراہ جاوید حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نقصان کا تخمینہ ابھی نہیں لگایا گیا ہے تاہم اس علاقے میں 100 کے قریب مکانات کو نقصان پہنچا ہے جس میں 25 مکمل تباہ جبکہ باقی کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

حسین نے بتایا: ’سب سے پہلے ہم نے رابطے کے لیے ایک عارضی پل اور چیئر لفٹ کا بندوبست کیا۔ اس کے علاوہ جو لوگ پھنس گئے تھے، ان کو ریسکیو کیا اور ساتھ میں ان کے لیے خوراک کا بھی بندوبست کیا.‘

صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ترجماب تیمور خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب انتظامیہ کو اسی علاقے میں سیلاب کی اطلاع ملی تو تمام متعلقہ اداروں کو امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کی ہدایت کر دی۔

انہوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کو امدادی سروے کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے جبکہ اپریشن سنٹر مکمل طور پر بحال ہے۔

ہم نے متاثرہ علاقوں الخدمت فاؤنڈیشن، آغا خان فاؤنڈیشن، اور ہلال اہمر پاکستان کے رضاکار دیکھے تاہم ضلعی انتظامیہ یا ریلیف ڈیپارمنٹ کے رضاکار ہمیں نظر نہیں آئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان