بھارت، چین کی جھڑپیں اچانک بڑی جنگ میں بدل سکتی ہیں: تجزیہ کار

بھارتی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کے مطابق 'صورت حال بہت کشیدہ ہے اور کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ اب انحصار اس چیز پر ہے کہ فریقین ایک علاقے میں بھڑکتی آگ کو کس طرح باقی ملک میں پھیلنے سے روک سکتے ہیں۔'

بھارتی فوجی اپنے ساتھی کے جنازے پر جو سات ستمبر کو چینی فوج سے جھڑپ میں ہلاک ہوئے تھے۔(اے ایف پی)

بھارت اور چین کے مابین کئی ماہ سے زیادہ جاری رہنے والے فوجی تنازعے کے بعد ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک، جو پہلے ہی جون میں کئی دہائیوں کے بعد ایک خونی جھڑپ میں لڑ چکے ہیں، کے درمیان جاری کشیدگی غیر ارادی جنگ کی طرف بڑھ سکتی ہیں۔

45 سالوں سے تحریری اور غیر تحریری معاہدوں کے ایک طویل سلسلے کے باوجود اس سرحد پر ایک بے چینی ہمیشہ برقرار رہی ہے لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے جاری مختصر جھڑپوں نے یہاں صورت حال کو غیر متوقع بنا دیا ہے۔ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ دونوں طرف سے کسی بھی غلط اندازے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے جن کی گونج اس سرد صحرائی خطے سے باہر تک جائے۔

بھارتی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کے مطابق 'صورت حال بہت کشیدہ ہے اور کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ اب انحصار اس چیز پر ہے کہ فریقین ایک علاقے میں بھڑکتی آگ کو کس طرح باقی ملک میں پھیلنے سے روک سکتے ہیں۔'

دونوں ایشیائی طاقتوں نے ایسے متعدد لاحاصل مذاکرات کیے جن میں بنیادی طور پر فوجی کمانڈر شامل رہے۔ ان مذاکرات کو سیاسی قبولیت بخشنے کا اشارہ دیتے ہوئے دونوں ممالک کے وزرائے دفاع نے جمعہ کے روز روسی دارالحکومت میں اس تعطل کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ چار ماہ قبل لداخ میں ٹکراؤ کے بعد فریقین کا یہ پہلا اعلیٰ سطحی براہ راست رابطہ تھا۔

قبل ازیں مئی کے شروع میں دونوں طرف سے فوجیوں کے مابین شروع ہونے والے اس جھگڑے سے پہلے سرحدوں پر تناؤ شروع ہوا۔ جون میں صورت حال ڈرامائی طور پر بگڑتی چلی گئی جب بھارت کے مطابق چینیوں نے ڈنڈوں، پتھروں اور گھونسوں کے ساتھ لڑائی کی جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ چین نے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں دی۔

یہ تنازع دنیا کے بلند ترین علاقے اور وہاں واقع ایک ایسے گلیشیر پر ہے جو دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی نظام کو پانی فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

ڈی ایس ہوڈا نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں دونوں طرف سے کسی بڑی جنگ کی خواہش موجود نہیں لیکن المیہ ہو گا کہ ایسی کسی بھی جھڑپ کے بعد ایک دم سارے معاہدے اور سرحدی احتیاطیں دھری رہ جائیں۔

پیکنگ یونیورسٹی بیجنگ کے پروفیسر برائے بین الاقوامی تعلقات وانگ لیان نے کہا کہ 'کسی بڑی اور پھیلی ہوئی جنگ کا امکان نہیں ہے کیونکہ حالیہ جھڑپوں میں دونوں فریقوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔'

لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'نئی دہلی پر چین مخالف جذبات کا دباؤ ہے اور چین کے خلاف سخت امریکی اقدامات سے اس کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔'

وانگ لیان نے کہا 'مجھے نہیں لگتا کہ (بھارت) بڑے پیمانے پر فوجی تنازع بڑھا سکتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ دونوں فریق کچھ تیاریاں کر رہے ہیں۔'

دوسری جانب بھارتی دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی کہتے ہیں کہ جون کی مہلک جھڑپ کے بعد بھارت نے سرحدی جنگ کے اصولوں کو تبدیل کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی فوجی کمانڈروں کو چینی فوجیوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی معاندانہ کارروائیوں کا مناسب اور متناسب ردعمل دینے کی آزادی دی گئی ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں اور ریٹائرڈ جرنیلوں سمیت بھارت کی سٹریٹجک برادری کے ممبران کا کہنا ہے کہ چین کی فوج نئے محاذ کھول کر باہمی عدم اعتماد کو گہرا کررہی ہے اور سردیوں سے پہلے فوری طور پر دستبرداری میں تاخیر کر رہی ہے جب کہ اس خطے میں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سیلسیئس (منفی 58 فارن ہائیٹ) تک گر سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں یہاں فوج تعینات کرنے کی لاگت بھارت معیشت کے لیے بھیانک ہو گی جو پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے ختم ہوچکی ہے۔

بھارت کی فوج کے لیے ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ چین کے کلیدی اتحادی  پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر اس کا کئی دہائیوں پرانا علاقائی تنازع بھی ہے۔

بھارتی فوجی پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اور چین کے مابین ایک باقاعدہ جنگ ہوتی ہے تو پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے جس سے بھارت کے لیے اور بھی خطرناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت نے گذشتہ ہفتے پاکستان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ چین کے ساتھ پیدا ہونے والے اس بحران سے فائدہ اٹھانے کا مت سوچے۔

بپن راوت نے کہا 'پاکستان شمالی سرحدوں (چین سے) پر بڑھنے والے کسی بھی خطرے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ہمارے لیے پریشانی پیدا کر سکتا ہے۔'

انہوں نے متنبہ کیا کہ 'پاکستان نے اگر کسی مس ایڈونچر کی کوشش کی تو اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔'

بھارت نے یکطرفہ طور پر لداخ کو ایک وفاقی سرزمین قرار دیا اور اگست 2019 میں اسے کشمیر سے علیحدہ کردیا۔ چین اس اقدام کی شدید مذمت کرنے والے ممالک میں شامل تھا جس نے اسے سلامتی کونسل سمیت بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا۔

کچھ بھارتی اور چینی سٹریٹجک ماہرین کے مطابق بھارت کے اس اقدام نے چین کے ساتھ موجود تناؤ میں بے پناہ اضافہ کیا جس کے نتیجے میں جون کا سرحدی تصادم ہوا۔

دفاعی تجزیہ کار اور ماہر چینی امور پروین سوہنی نے کہا 'ہم ایک انتہائی مشکل مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ دونوں ممالک جنگ سے بچنا چاہتے ہیں لیکن اگر کسی جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو پاکستان کشمیر کو گھیرے میں لے لے گا۔ یہ کشمکش تین محاذوں پر پھیل جائے گی۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا