جسٹس فار۔ ۔ ۔ اب اس ٹرینڈ سے ڈر لگتا ہے!

یومِ دفاع پر کراچی کی پرانی سبزی منڈی سے ایک پانچ سالہ بچی کی جلی ہوئی لاش ملی تھی۔ انڈپینڈنٹ اردو کی خبر کے مطابق بچی قریبی دکان سے بسکٹ لینے کے لیے گھر سے نکلی تھی، راستے میں کسی نے اغوا کر لیا۔ کس نے؟ کچھ خبر نہیں۔

(پکسابے)

جب بھی ٹوئٹر پر جسٹس فار ۔۔۔۔۔ کا ٹرینڈ دیکھتی ہوں، ڈر سی جاتی ہوں۔ نام نیا ہوتا ہے پر ظلم وہی پرانا ہوتا ہے۔

ٹرینڈ کھولنے سے پہلے ہی آدھی خبر کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ پہلے ریکی ہوئی ہوگی، پھر اغوا ہوا ہو گا، پھر کسی اندھیرے کمرے میں معصوم جان پر قیامت ٹوٹی ہو گی، پھر گلا گھونٹا گیا ہو گا یا گولی ماری ہو گی یا چھت سے نیچے پھینک دیا ہو گا، یا پتہ نہیں کیا کیا ہو گا، بس کچھ ایسا کہ ان کی حیوانیت کا واحد گواہ بھی ختم ہو جائے۔ اس کے بعد لاش کو کچرے کے ڈھیر یا گندے نالے میں پھینک دیا ہو گا۔

ہر کیس میں کم و بیش ایسا ہی ہوتا ہے۔ کبھی مظلوم کوئی بچہ ہوتا ہے تو کبھی بچی تو کبھی لڑکی تو کبھی عورت۔ مرد بھی جنسی زیادتی کا شکار ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں لیکن ایسے کیسوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے۔ جنسی زیادتی جس کے ساتھ بھی ہو، غلط ہے۔

یومِ دفاع پر کراچی کی پرانی سبزی منڈی سے ایک پانچ سالہ بچی کی جلی ہوئی لاش ملی تھی۔ انڈپینڈنٹ اردو کی خبر کے مطابق بچی قریبی دکان سے بسکٹ لینے کے لیے گھر سے نکلی تھی، راستے میں کسی نے اغوا کر لیا۔ کس نے؟ کچھ خبر نہیں۔ بس دو دن بعد اس کی لاش ملی۔ دو دن کیا ہوتا رہا۔ وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لکھا ہوا ہے۔

بچی گھر واپس نہیں پہنچی ہو گی تو ڈھنڈیا مچی ہوگی، مسجد میں اعلان ہوا ہو گا، رشتے داروں کے گھر فون گئے ہوں گے، پھر کسی نے پولیس سٹیشن جانے کا مشورہ دیا ہو گا۔ زینب الرٹ بل کے مطابق ایسے کیسوں میں پولیس کا رپورٹ درج ہونے کے دو گھنٹوں کے اندر اندر ایکشن لینا لازمی ہے ورنہ ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اس کیس میں پولیس نے رپورٹ درج کرنے کے بعد کیا کیا؟ صحافیوں کو پوچھنا چاہیے تھا۔ پولیس نے رپورٹ درج کرتے ہی فوری ایکشن کیوں نہیں لیا؟ علاقے کی تلاشی کیوں نہیں لی؟ ایک ایک گھر کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹایا؟ ان سوالوں کے جواب جاننا بہت ضروری ہے۔

اس بچی کے والدین سوشل میڈیا کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ  چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے لیے بھی ویسے ہی انصاف مانگا جائے جیسے دو سال پہلے زینب انصاری کے لیے مانگا گیا تھا۔ سوشل میڈیا والوں نے چند گھنٹوں کے لیے ان کی اپیل سنی تھی پھر یاسر حسین نے کوئی ارطغرل کے بارے میں کوئی بیان دے دیا تو لوگوں نے اس بارے میں ٹویٹ کرنا شروع کر دیے۔

زینب خوش قسمت تھی، جنسی زیادتی کا شکار ہونے والا ہر بچہ اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا۔ اس کے لیے پورا ملک ایک زبان ہو گیا تھا۔ مجرم کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عوام کا دباؤ دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں نے بھی اس کیس پر اپنی پوری سیاست کھیلی تھی۔ حکومت نے ریکارڈ مدت میں مجرم ڈھونڈ کر اسے پھانسی بھی چڑھا دیا تھا۔ لوگوں کو لگا تھا اب ایسے واقعات نہیں ہوں گے پر کاش ایسا ہوتا۔ ہم نے اس کے بعد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ میں تیزی دیکھی۔ اب پتا نہیں واقعات زیادہ ہو گئے تھے یا ان کی رپورٹنگ زیادہ ہو گئی تھی، حکومت نے اس پر بھی تحقیق نہیں کی۔

وطنِ عزیز میں روز لاشیں ملتی ہیں، روز پوسٹ مارٹم ہوتے ہیں جن کی رپورٹوں میں بتایا جاتا ہے کہ لاش کو قتل سے پہلے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، اور پھر بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ جس واقعے پر شور زیادہ مچ جائے، اس پر ایکشن لے لیا جاتا ہے ورنہ روتے رہو، پیٹتے رہو، انہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بچی کے چچا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا شہر ہے جہاں پانچ سال کی بچی کو ایسی درندگی اور بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے۔

جناب آپ شہر کی بات کرتے ہیں، یہاں تو پورے ملک کا یہی حال ہے۔ آپ کی باری اب آئی ہے، بہتوں کی آ چکی ہے اور بہتوں کی آنے والی ہے۔ جب تک اس ملک کا نظام تبدیل نہیں ہوگا تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ اس آگ کی لپیٹ میں سب آئیں گے۔

ایسے واقعات کے بعد عوام مجرم کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسا ہونا شروع ہو جائے شاید ملک میں بس خواتین اور بچوں کے علاوہ درجن بھر مرد ہی باقی رہ جائیں گے۔ سرِ عام پھانسی کے خوف سے مجرم اپنے شکار کو ایسے ہی قتل کر کے ادھر ادھر پھینک دیا کریں گے۔

پس اس مسئلے کا حل سرِ عام پھانسی نہیں ہے۔ ہمیں اپنا زور اپنی گلیوں اور سڑکوں کو محفوظ بنانے پر لگانا چاہیے۔ سیف سٹی کے کیمرے ٹریفک قوانین کی بے ضابطگیاں تو دیکھ لیتے ہیں، جنسی ہراسانی اور اغوا کے واقعات کیوں نہیں دیکھ پاتے؟ ان کا استعمال ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ ملک کے ہر ویران علاقے میں سی سی ٹی وی کیمرے لگنے چاہییں۔

اس کے علاوہ حکومت کو جنسی تشدد کے خلاف ملک گیر مہم چلانی چاہیے جس میں لوگوں کو جنسی ہراسانی، جنسی تشدد، اس کی سزا اور مدد کے بارے میں بتایا جائے۔ اس کے بغیر ان واقعات کی روک تھام بہت مشکل ہے۔

---------

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ