کیا اکیسویں صدی میں ہم  سول آزادیوں سے محروم رہیں گے؟

حد تو یہ ہے کہ حکومت سے ایک کارٹون بھی برداشت نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں کتاب کو مارکیٹ سے اٹھا لیا جاتا ہے۔

میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس کے مالک کو پچھلے چھ مہینوں سے بغیر کسی مقدمہ درج کیے جیل میں پھینک دیا گیا ہے۔ (انڈپینڈنٹ اردو)

جب سے موجودہ حکومت کے برسراقتدار لائی گئی ہے ہماری شہری آزادیوں کو کم کرنے کی بظاہر ایک منظم کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں جن میں آزاد آوازوں کو دبایا جاسکے۔

اس کے لیے کبھی صحافیوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور کبھی سیاسی کارکنوں کو غائب کر دیا جاتا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سرکاری ملازمین کو بھی اغوا کیا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں شمالی علاقہ جات کی سیر پر بھیج دیا جاتا ہے۔

تہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

عدلیہ بھی حکومتی جبر سے محفوظ نہیں اور ججوں کو مختلف طریقوں سے پسندیدہ فیصلوں کے لیے مبینہ طور پر دباؤ کا سامنا ہے۔

فیٹف کی آڑ لیتے ہوئے خطرناک قانون سازی کی جا رہی ہے جس سے مخالفین کو لمبے عرصے کے لیے بغیر مقدمے کے حراست میں رکھا جا سکے گا۔ ممبران اسمبلی کو اجلاس میں شامل ہونے سے روکنے کی ترغیب یا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ حکومت سے ایک کارٹون بھی برداشت نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں کتاب کو مارکیٹ سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا بھی اس فسطائیت سے اب محفوظ نہیں رہا۔ ایسا لگتا ہے سول آزادی جیسا حق اب پاکستانی صارفین کو میسر نہیں۔

ایک عرب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں دعویٰ کیا کہ آج سے پہلے میڈیا پاکستان میں اتنا آزاد نہ تھا۔ حالانکہ پاکستانی میڈیا پر اتنا برا وقت تو شاید ضیا الحق کی آمریت کے دور میں بھی نہیں آیا تھا۔

میڈیا پر خبریں سنسر ہوتی ہیں۔ کبھی آواز بند کر دی جاتی ہے اور کبھی تو چینل کو ہی بند کر دیا جاتا ہے۔ اخبارات کو ہدایات دی جاتی ہیں کہ فلاں کالم نگار کا کالم نہیں چھپ سکتا۔ ٹی وی چینلز کو اپنے اینکرز بدلنے کی ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ ٹی وی شوز میں مدعوین کی شرکت پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔

میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس کے مالک کو پچھلے چھ مہینوں سے بغیر کوئی مقدمہ درج کیے جیل میں پھینک دیا گیا ہے۔ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی ریٹنگ مسلسل گر رہی ہے۔ بعض سیاسی رہنماؤں کی کوریج پر سیاسی مقاصد کے لیے مسلسل پابندی ہے اور ہمارے وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ میڈیا آزاد ہے۔ ان کے اس بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وزیراعظم باخبر نہیں یا جو قوتیں یہ پابندیاں لگا رہی ہیں وہ وزیر اعظم کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

شہری آزادیوں کو سلب کرنے کے لیے اب سوشل میڈیا کا رخ کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ میڈیا قدرے آزاد رہا ہے اور اس کو موجودہ حکومت نے اور اسٹیبلشمنٹ نے ماضی میں اپنا بیانیہ عام کرنے کے لیے کھل کر استعمال کیا۔ اب جب موجودہ گھٹے ہوئے ماحول میں اپوزیشن نے اس میڈیم کو کامیابی سے استعمال کرنا شروع کیا ہے تو اس پر بھی بےتحاشہ پابندیاں لگانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس میں انتہائی سخت اور ظالمانہ قوانین کا استعمال کر کے لکھنے کی آزادی کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔

اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے سیاسی کارکن بھی سخت مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ چاہے بلوچستان ہو یا پنجاب یا سندھ یا خیبرپختونخوا، سبھی جگہوں پر غیرقانونی گرفتاریاں اور اغوا ہو رہے ہیں اور روزبروز گمشدہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ گمشدہ افراد کے پیاروں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں اور اس بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ یہ گمشدہ افراد دراصل ریاست کے مخالف ہیں اور یہی ان کا علاج ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غرض ایک لاقانونیت کی سی صورت حال ہے جس میں عدالتیں بھی بےبس دکھائی دیتی ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ اب تک صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے بارے میں حکام سے معلومات ملنے کا انتظار کر رہی ہیں۔

ایس ای سی پی کے اہلکار کو اسلام آباد جیسے محفوظ شہر، جس میں ہر کونے پر سکیورٹی کیمرے لگے ہوئے ہیں، اغوا کر لیا جاتا ہے مگر شہری انتظامیہ اس کے بارے میں کوئی معلومات دینے سے قاصر ہے۔ حالیہ فیٹف (FATF) قانون سازی نے تفتیشی اداروں کے اختیارات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اور اب منی لانڈرنگ کے قانون کو جواز بناتے ہوئے حکومتی مخالفین یا سول حقوق کے کارکنوں کو آسانی سے نشانہ بناتے ہوئے انہیں کئی مہینوں تک بغیر مقدمے کے جیل میں رکھا جاسکے گا۔

کیا اکیسویں صدی میں ایسا سوچا جا سکتا ہے کہ ایک جمہوری ملک میں شہری آزادیوں کو اس طرح سلب کر لیا جائے۔ کیا ایک مہذب معاشرہ اس طرح اپنے شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک جاری رکھ سکتا ہے۔ کیا حکومت کی رائے سے اختلاف ایک جرم ہے؟

اگر اس حکومتی من مانی اور اداروں کی زبردستی کو نہ روکا گیا یا تو جلد ہر شہری اس ملک میں غیرمحفوظ ہوگا۔ اس فسطائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سول سوسائٹی باہر نکلے اور اپنے حقوق کے دفاع کے لیے متحد ہو کر حکومت کو ان حرکتوں سے روکے اور ہماری کم ہوتی ہوئی شہری آزادیوں کو بچائے۔ ہمیں جمہوری حکومت سے مزید جمہوری آزادیوں کی توقع کرنی چاہیے نہ کہ مزید آمریت ہمارا مقدر بنے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ