'اچھی بات ہے سکول کھل رہے ہیں لیکن میں بہت پریشان ہوں۔ سکول میں بچوں کو کرونا (کورونا) وائرس لگنے کا خطرہ تو موجود ہے۔ بالکل سمجھ نہیں آرہی کہ بچوں کو سکول بھیجیں یا گھر بٹھائیں؟'
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون خانہ مسز مظفر اپنے اکلوتے بیٹے کو سکول بھیجنے کے خیال سے پریشان ہیں، جو ایک نجی سکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مسز مظفر نے بتایا کہ وہ شش و پنج کا شکار ہیں کیونکہ سکولوں میں کرونا کیسز کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ 'بچے کو گھر بٹھائیں تو تعلیم کا حرج اور سکول بھیجیں تو بیماری کا خطرہ۔'
انہوں نے مزید کہا: 'ابھی ٹی وی پر دیکھا کہ کل سے چھوٹی کلاسز شروع ہو رہی ہیں۔ شام کو میرے میاں گھر آئیں گے تو ان سے مشورے کے بعد بچے کو سکول بھیجنے سے متعلق فیصلہ کروں گی۔'
مسز مظفر کی طرح پاکستان میں لاکھوں والدین تعلیمی اداروں کے کھلنے سے خوش ہونے کے باوجود پریشان ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ سکول جانے کی وجہ سے ان کے بچے کرونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 15 ستمبر کو تعلیمی اداروں کے کھولے جانے کے پہلے مرحلے کے شروع ہوتے ہی کئی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آئے تھے، جس کے باعث ملک بھر میں لگ بھگ تین درجن ادارے دوبارہ سے بند کردیے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت نے بچوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ڈر سے چھوٹی کلاسز شروع کرنے کے فیصلے پر دوبارہ غور کا مشورہ دیا تھا۔
تاہم منگل کو پاکستان میں کرونا وائرس کی وبا سے متعلق پالیسی ساز ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے بدھ (23 ستمبر) سے تعلیمی ادارے کھولنے کے دوسرے مرحلے کا اعلان کردیا ہے۔
دوسرے مرحلے میں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کی کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
این سی او سی نے سات ستمبر کے اجلاس میں تعلیمی اداروں کے دوبارہ کھولے جانے سے متعلق حتمی فیصلہ کیا تھا، جس کے تحت 15 ستمبر سے نویں، دسویں اور بڑی کلاسز شروع کی گئی تھیں جبکہ چھوٹی کلاسز 22 ستمبر سے شروع ہونا تھیں۔
منگل کے اجلاس میں این سی او سی نے تفصیلی بحث کے بعد چھوٹی کلاسز شروع کرنے کے فیصلے کی توثیق کی۔
این سی او سی کے اجلاس کے فوراً بعد خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم شہرام ترکئی نے صوبے میں چھٹی سے آٹھویں جماعت کے طلبہ کے لیے کلاسز شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔
پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو ریکارڈ کیا گیا تھا اور کیسز میں اضافے کے باعث مارچ میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے۔
این سی او سی نے تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر اپنانے کی سختی سے تاکید کی تھی۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے این سی او سی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا کہ جو تعلیمی ادارے پہلے مرحلے کے دوران بند کیے گئے وہاں ایس او پیز پر عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے ان رپورٹس کی تردید کی جن میں کہا جا رہا تھا کہ تعلیمی ادارے کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد دوبارہ بند کیے گئے۔
مسز مظفر کے برعکس اسلام آباد ہی کی رہائشی مسز شاہین بچوں کو سکول بھیجنے سے متعلق واضح موقف رکھتی ہیں۔ وہ بچوں کو سکول بھیجنے کے بالکل حق میں نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا: 'میں اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتی۔ زیادہ سے زیادہ ایک سال ضائع ہو جائے گا، کوئی بات نہیں ہونے دو۔ بچے کی صحت اور زندگی ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔'
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مسز شاہین کا کہنا تھا: 'کئی سکولوں اور کالجوں میں کرونا کے مثبت کیسز سامنے آئے ہیں۔ تو پھر کیوں ہم اپنے بچوں کو سکول بھیجیں۔'
ان کے خیال میں حکومت اور سکولوں کی انتظامیہ کو آن لائن کلاسز کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اس سلسلے میں اقدامات کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر سکیں۔
والدین کی تشویش کے برعکس سکولوں کی انتظامیہ تعلیمی اداروں کے کھلنے سے مطمئن ہیں۔
پشاور میں ایک نجی سکول کی استاد شمع ممتاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں کہا کہ حکومت کے بتائے ہوئے ایس او پیز پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: 'ہم بچوں کو ایک جگہ پر جمع ہونے نہیں دیتے اور اسی لیے صبح کی اسمبلی اور دوپہر کی بریک ختم کر دی گئی ہیں، گیمز کی کلاسز بھی بند ہیں، ماسک لگانا ضروری ہے اور ہر فلور پر ہاتھ دھونے کی سہولت موجود ہے۔'
اسی طرح اسلام آباد میں ایک نجی سکول کی انتظامیہ کے رکن فرخ اعجاز نے بتایا کہ ایس او پیز پر عمل کرنے میں انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے والدین کو تسلی رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ سکول آنے والے بچے پوری طرح محفوظ ہیں اور ان کی صحت کا پورا خیال رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سکولوں میں رش کم کرنے کی خاطر ہر روز آدھے بچوں کو سکول بلایا جا رہا ہے۔
راولپنڈی کے رہائشی محمد فاروق کا ایک بیٹا نویں جماعت کا طالب علم ہے، جسے وہ 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد سے سکول بھیج رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: 'میرا خیال ہے کہ اب کرونا کیسز میں اضافہ نہیں ہو گا۔ جنہیں ہونا تھا انہیں ہو گیا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے تعلیمی اداروں کے کھلنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'اس طرح بچوں کا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ گھر پر بچے بالکل نہیں پڑھتے۔ ایسا صرف سکول میں ہی ممکن ہے۔'
دوبارہ سے کھلنے والے تعلیمی اداروں میں سٹاف اور طالب علموں کے کرونا ٹیسٹ بھی کیے جا رہے ہیں۔
شمع ممتاز نے بتایا کہ ان کے سکول میں تقریباً تمام بچوں اور سٹاف کے ٹیسٹ مکمل ہو چکے ہیں اور کوئی مثبت کیس سامنے نہیں آیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے باوجود تمام بچوں اور سٹاف کا صبح کلاسز میں جانے سے پہلے درجہ حرارت چیک کیا جاتا ہے اور شک کی صورت میں ایسے بچوں کو گھر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
نجی سکولوں میں صورت حال کافی حد تک اطمینان بخش قرار دی جا سکتی ہے۔ تاہم بعض سرکاری تعلیمی اداروں میں ایس او پیز پر عمل در آمد میں کوتاہی برتی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود بار ہا تعلیمی اداروں کے کھولے جانے کے فیصلے کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: 'ہم تعلیمی ادارے بند رکھ کر بچوں کا مزید وقت ضائع نہیں کر سکتے۔ سکولوں اور کالجوں کا کھلنا ناگزیر ہے۔'
شفقت محمود تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے ایس و پیز پر بھی سختی سے عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں، جس سے ان کے خیال میں بیماری کے پھیلنے کے امکانات ختم ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلمان نے میڈیا کو بتایا کہ تعلیمی اداروں کے کھلنے کے بعد ملک میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافہ بالکل بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا: 'گذشتہ ایک ہفتے میں وائرس کے کیسز میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، اس لیے تعلیمی اداروں کے کھولنے کا اگلا مرحلہ شروع نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔'