قبائلی اضلاع: اقلیتوں کو حقوق تو مل گئے مگر مسائل بڑھ گئے

قبائلی اضلاع میں پہلے صفائی ستھرائی کی ملازمتیں اکثر اقلیتی برادری کا حق سمجھی جاتی تھیں لیکن اب بڑھتی بے روزگاری کے سبب دوسرے قبائلی بھی ان ملازمتوں کے امید وار بن گئے ہیں۔ 

ضلع خیبر میں مسیحی برادری بھی متاثرین میں شامل ہے(اے ایف پی فائل فوٹو)

پاکستان کے قبائلی اضلاع میں آباد اقلیتوں کو دوسرے قبائلیوں کی طرح برابری کے حقوق تو مل گئے مگر ان کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

پہلے صفائی ستھرائی کی ملازمت اکثر ان کا حق سمجھی جاتی تھی لیکن اب بڑھتی بےروزگاری کے سبب دوسرے قبائلی بھی ان ملازمتوں کے امید وار بن گئے ہیں۔ 

وانا کے رہائشی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری آکاش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انضمام کے بعد پہلی دفعہ جنوبی وزیرستان کےصدر مقام پر ٹی ایم او کے دفتر میں خاکروب کی آٹھ خالی آسامیوں پر چار مقامی وزیر قبائلی اور چار مسیحی برادری کے لوگ بھرتی ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ اب صرف ملازمت سے کام نہیں چلتا، جس کی وجہ سے مسیحی برادری کے کافی لوگ وانا بازار میں سلائی اور رنگ و روغن کے کاروبار سے منسلک ہوگئے ہیں۔مگر ان اقلیتوں  کو رہائش کے سنگین مسائل بدستور درپیش ہیں۔ 

آکاش نے بتایا کہ وانا سکاؤٹس کیمپ سے ایسے 15 خاندان کو نکال دیا گیا، جن کی سکاؤٹس فورس میں نوکریاں نہیں تھیں اور وہ دوسروں کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے کہا سکاؤٹس کیمپ سے نکالے گئے خاندانوں کو ضلعی ہیڈکواٹر ہسپتال وانا میں مکانات تو مل گیے ہیں مگر یہ مستقل حل نہیں، ان کے لیے الگ کالونی کی ضرورت ہے۔       

ضلع خیبر میں مسیحی برادری بھی متاثرین میں شامل ہے۔ چند دن پہلے ان اضلاع میں صوبائی حکومت کی نئی ترقیاتی سکیموں کی زد میں آکر مسیحی برادری کے چھ مکانات کو مسمار کر دیاگیا تھا۔ 

قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے علاقے میں ترقیاتی سکیموں کا آغاز کردیا ہے جس میں دوسری ترقیاتی سکیموں کے علاوہ سرکاری دفاتر، جیل خانہ جات اور پولیس تھانے شامل ہیں۔ بعض ایسے صوبائی محکمے تھے جن کا پہلے سے قبائلی اضلاع میں وجود ہی نہیں تھا اور اب حکومت کی کوشش ہے کہ ان محکموں کے دفاتر کے لیے جگہ ڈھونڈ سکیں۔  

مقامی انتظامیہ کے مطابق قبائلی اضلاع میں دوسرے محکموں کی نسبت سابق پولیٹیکل انتظامیہ اور سکاؤٹس فورس کے قبضے میں سب سے زیادہ ملکیتیں ہیں جبکہ دوسرے محکمے برائے نام موجود ہوتے تھے۔ 

سول انتظامیہ کے مطابق ہر محکمے کے لیے جگہ ڈھونڈنا بھی سول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور انتظامیہ کے علاوہ دوسرے محکمے کے پاس زمینیں بہت کم دستیاب ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں سرکاری زمینوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے مکانات کو چند ہفتے پہلے نوٹس جاری کیا گیا تھا، جن میں دوسرے شہریوں کے علاوہ مسیحی برداری کے لوگ بھی شامل تھے۔ 

 اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل عمران خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سرکاری زمینوں پر مسیحی برادری کے مکانات موجود ہیں اور اس وقت زیر تعمیر نئی جیل کی حدود میں چند مکانات کو مسمار کر کے تمام خاندانوں کو متبادل جگہ پر بھیج دیا گیا ہے۔ 

اقلیتی برادری کے رکن صوبائی اسمبلی ولسن وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تمام قبائلی اضلاع میں اقلیتوں کی ملکیت کے مسائل موجود ہیں، وہ طویل عرصے سے سرکاری زمین پر رہ رہے ہیں مگر دوسرے قبائلوں کی طرح کسی کے نام پر کوئی زمین نہیں، جس کی وجہ سے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ تمام قبائلی اضلاع میں اقلیتوں کے لیے کالونیاں تعمیر کی جائیں اور پھر مکانات ان کے اپنے ناموں پر درج ہوں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ لنڈی کوتل واقعے میں مسیحی برادری کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی،  جن لوگوں کے مکان مسمار ہوئے، ان کو متبادل مکان ملے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسمار کیے گئے مکانات ان لوگوں کے والدین کو سرکاری نوکریوں کے مد میں ملے تھے، اب ان کے بچوں نے دوسرے محکموں میں نوکریاں اختیار کی ہیں اور وہ غیر قانونی طور پر وہاں رہ رہے تھے۔ 

ارشد مسیح کا کہنا ہے کہ 15 دن پہلے ان کو نوٹس ملا تھا کہ وہ مکان خالی کر دیں۔ ان کا خیال تھا کہ دوسری مناسب جگہ پر ان کو مکان مل جائے گا، مگر وہ پہلے جیسے مکان نہیں ہیں بلکہ بہت تنگ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے زیادتی کی ہے اور 80 سال سے رہائش پذیر مسیحی برادری کے لوگوں کا خیال نہیں رکھاگیا۔ 

ارشد مسیح نے بتایا کہ ان کے خاندان والے قیام پاکستان سے پہلے یہاں آباد ہوچکے تھے،اب دوسری جگہ منتقل ہونے پر بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انضمام کے بعد مسیحی برادری کا حق بنتا ہے کہ ان کے لیے الگ فنڈ بنایا جائے۔ 

ولسن وزیر کے مطابق قبائلی اضلاع میں 30 ہزار کے قریب اقلیتی برادری کے لوگ آباد ہیں، جن میں مسیحی، سکھ اور ہندو شامل ہیں۔ ولسن کے مطابق ان کی سب سے زیادہ آبادی جنوبی وزیرستان میں ہے جہاں پہلے کی نسبت وہ زیادہ خُوش رہتے ہیں اور ان کی خُوشی کی وجہ ذاتی کاروبار میں حصہ لینا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وانا میں مسیحی برادری کے لوگ سلائی اور رنگ و روغن کے کاروبار سے وابستہ ہوچکے ہیں جس کی بدولت ان کو اپنے بچوں پر معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ 

آکاش کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کو شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ ڈومیسائل بھی مل گئے ہیں جس کی بنیاد پر وہ قبائل کے کوٹے میں شامل ہونے کے بعد ہر مقابلے کے امتحان میں حصہ لے سکتے ہیں۔'اب مسیحی برادری کے نوجوانوں کو صرف صفائی سھترائی کی نوکری نہیں بلکہ تعیلم کی بنیاد پر صحت، تعلیم اور دوسرے محکموں میں اچھے عہدے ملے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان