شمزہ کے فن پاروں کا تنازع اب ختم ہو جانا چاہیے

میری شمزہ کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں ان فن پاروں کو وصول کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔

انور جلال شمزہ کی اہلیہ نے 1985 میں ان کے سو فن پاروں کی پاکستان میں نمائش کا اہتمام کیا تھا (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فوزیہ سعید نے گذشتہ دنوں مصور انور جلال شمزہ کے دس فن پاروں کو برطانیہ میں مقیم ان کی اہلیہ کو واپس کرنے پر ہونے والی نکتہ چینی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے بورڈ ڈائریکٹرز نے متفقہ طور پر 15 جولائی 2020 کو ہونے والی میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ انور جلال شمزہ کی قانونی وارث ان کی اہلیہ میری انور شمزہ ہیں اور مذکورہ فن پارے 1985 میں نمائش کے لیے مستعار لیے گئے تھے۔

ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا ہے کہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور میری شمزہ دونوں کو اس بات پر کوئی ابہام نہیں کہ یہ فن پارے نمائش کے لیے کونسل کو مستعار  دیے گئے تھے اور  انہیں کبھی نہ کبھی واپس کرنا ہی تھا۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انور جلال شمزہ کی اہلیہ نے 1985 میں ان کے سو فن پاروں کی پاکستان میں نمائش کا اہتمام کیا تھا جو ملک کے چار شہروں میں ہوئی تھی اور ان کی روانگی سے قبل دو فن پارے جن میں  پانچ خاکے اور پانچ پینٹنگز تھیں کی رسید موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد غلام رسول، جو  اس وقت پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سربراہ تھے، نے میری شمزہ کو یہ تصاویر مستقل دینے کی استدعا بھی باقاعدہ ادارے کے لیٹر ہیڈ پر کی تھی اور 40 ہزار روپے فی فن پارہ دینے کی پیشکش بھی کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی سال تک مصور کی اہلیہ میری شمزہ ان تصاویر کا تقاضہ کرتی رہیں اور 2017 میں انہوں نے اس ضمن میں عاصمہ جہانگیر کے توسط سے ایک قانونی نوٹس بھی بھیجا تھا جس وقت جمال شاہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کو قومی ورثہ اور ثقافتی ڈویژن کے تحت کیا ہے جو وفاقی وزیرِ شفقت محمود کی وزارتِ تعلیم و قومی ورثہ کے ماتحت ہے جب کہ خود ان کا تقرر رواں برس جنوری میں ہوا تھا۔

ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق ادارے کی ساکھ کو نقصان سے بچانے کی خاطر وفاقی وزیر شفقت محمود کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تمام تر زیرِ التوا معاملات کی تکمیل کی جائے تاکہ ملکی اور عالمی سطح پر بدنامی نہ ہو۔

انہوں نے اس امر کی بھی تردید کی کہ انور جلال شمزہ کے دیگر ورثا بھی ان فن پاروں پر اپنا حق جتا سکتے ہیں کیونکہ یہ تمام کے تمام فن پارے پی این سی اے کو میری شمزہ نے خود فراہم کیے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ فن پارے جب میری شمزہ  نے لندن میں وصول کر لیے تو ان کی جانب سے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور وفاقی وزیرِ شفقت محمود کو بھی شکریہ کے خطوط لکھے گئے ہیں۔

میری شمزہ کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں (جس کی کاپی انڈیپینڈنٹ اردو کے پاس ہے) نے ان فن پاروں کو وصول کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔

خط کے مطابق 17 اگست 2020 کو ان کی بھتیجی رخسانہ خان نے یہ فن پارے وصول کیے جو ان کی جانب سے پاور آف اٹارنی رکھتی تھیں اور اب یہ ان کے پاس برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد 1985 میں انہوں نے ان کے فن پاروں کی پاکستان میں نمائش کی تھی اور اس میں سے دس فن پارے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کو مستعار دیے گئے تھے جنہیں خریدنے کی کوشش بھی کی گئی تھی تاہم انہوں نے اس لیے انکار کیا تھا کیوںکہ انہیں برطانوی کرنسی میں ادائیگی نہیں کی جارہی تھی۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ وہ تین دہائیوں تک ان فن پاروں کی واپسی کے لیے کوشاں رہی ہیں جبکہ وہ انور جلال شمزہ کی بیوہ اور ان کی قانونی وارث ہیں۔

تاہم بالآخر یہ فن پارے واپس ملنے پر وہ مسرور و شاداں ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ