کرسمس تک افغانستان سےامریکی افواج کا انخلاچاہتے ہیں:ٹرمپ

طالبان کے ساتھ قطر میں 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے میں امریکہ نے 2021 کے وسط تک اپنی تمام فوجیں افغانستان سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو اس خواہش کا اظہار کیا کہ افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کا انخلا کرسمس تک ممکن ہو جانا چاہیے تاکہ امریکہ کی اس طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات جلد از جلد مکمل ہو سکیں۔

صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پر لکھا۔ ’کرسمس تک افغانستان میں خدمت کرنے والے ہمارے بہادر مرد و خواتین کی تعداد وہاں بہت تھوڑی رہ جانی چاہیے!‘

طالبان کے ساتھ قطر میں 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے میں امریکہ نے 2021 کے وسط تک اپنی تمام فوجیں افغانستان سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔

امریکی انتظامات کے تحت گذشتہ ماہ افغان حکومت اور طالبان نے دوحہ میں امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا جس کے بعد مذاکرات میں فوری تعطل بھی نظر آیا۔

ٹرمپ کا یہ وعدہ امریکی انتخابات سے ایک ماہ قبل سامنے آیا ہے جس میں صدر نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’لامتناہی امریکی جنگیں‘ ختم کرنے کے لیے اپنے وعدے پر عمل پیرا ہیں۔

امریکی فوجی کارروائیوں کے ان طویل 19 برس بعد ان کا موقف امریکیوں میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کر رہا ہے۔

اس موقف کے حامیوں میں ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن بھی شامل ہیں جنھوں نے بطور امریکی نائب صدر اپنے عہدے کی مدت کے دوران افغانستان میں امریکی مداخلت کو روکنے کے لیے زور دیا تھا۔

پچھلے مہینے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہوں نے افغانستان اور عراق دونوں ممالک سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے ٹرمپ منصوبوں کی حمایت کی ہے ، بائیڈن نے کہا ’ہاں ، میں اس صورت میں حمایت کرتا ہوں بشرطیکہ وہ دونوں ممالک میں سرگرم داعش سے نمٹنے کا لائحہ عمل بھی طے کر لیں۔‘

11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ نے پہلی بار افغانستان میں مداخلت کی اور اس طالبان حکومت کو ختم کردیا جس نے القاعدہ کو وہاں اپنے پنجے گاڑنے میں مدد دی تھی۔

لیکن ان ابتدائی برسوں کے بعد جب سے باغی عسکریت پسندوں نے کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے ایک نئی جنگ کا آغاز کیا ہے ، 2014 میں نیٹو کے جنگی دستوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں عام شہریوں پر تشدد کو بڑھاوا ملا ہے۔

دوحہ مذاکرات طالبان کے اس اصرار پر تعطل کا شکار رہے کہ تمام شرائط سنی فقہ کے  مطابق طے ہوں گی۔  اس صورت میں افغانستان کی شیعہ برادری اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا خدشہ تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب زلمے خلیل زاد نے دوحہ سے ویڈیو کال کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے شکاگو یونیورسٹی کے پیئرسن انسٹی ٹیوٹ سے خطاب کے دوران کہا کہ ’افغانوں کی بھاری اکثریت اس تنازع کا خاتمہ چاہتی ہے۔‘

’مجھے یقین ہے کہ طالبان مذاکرات کے سلسلے میں کافی سنجیدہ ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ ایک میز پر نہیں بیٹھیں گے اور یہ کہ وہ صرف امریکی افواج کے انخلا کا معاہدہ تھا، لیکن اب وہ میز کے اس پار موجود ہیں۔‘

زلمے خلیل زاد نے مزید کہا ’ہمارے مطابق اب بھی افغانستان میں تشدد کی شرح بہت بلند ہے۔‘ اگرچہ انہوں نے واضح کیا کہ 2020 کے پہلے نصف میں افغان شہریوں اور فوجی ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔

قبل ازیں افغان صدر اشرف غنی نے منگل کے روز دوحہ کا دورہ کرتے ہوئے طالبان سے ’ہمت کرنے‘ اور جنگ بندی کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغان صدر اشرف غنی کی حکومت پر دباؤ تھا کہ وہ 5،000 طالبان قیدیوں کو رہا کرے تاکہ یہ شرط پوری ہونے کے بعد طالبان جنگجوؤں سے مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا