دنیا اور پاکستانی پابندی کا فرق

ایک بڑا مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ ہمارے دو طبقے خاص طور پر مذہبی اور لبرل دونوں خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور دوسرے کی بات سننا بھی انہیں گوارا نہیں۔

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

یہ آئے دن پاکستان میں ہر چیز پر اتنی پابندیاں کیوں لگ جاتی ہیں۔ کبھی اشتہار بین، کبھی ڈرامے بند، کبھی شیشہ بین تو کبھی کوئی موبائل ایپ ممنوع۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب صرف پاکستان میں ہوتا ہے تو آپ بالکل غلط ہیں۔

یہی سوچتے ہوئے اپنی پڑھائی کا دور یاد آگیا جب میں مانچسٹر اور لندن میں رہتی تھی۔ برطانیہ میں ایک دن ایک بورڈ پر اشتہار دیکھا کہ اگر آپ کسی بچے کے ساتھ گاڑی میں جا رہے ہیں اور آپ کو سگریٹ پیتے دیکھ لیا گیا تو آپ کی خیر نہیں۔ ارے یہ تو پابندی لگا دی؟ اب میں اپنی مرضی سے سگریٹ بھی نہیں پی سکتا؟ مجھے لگا یہ شور اٹھے گا لیکن وہاں تو کسی نے ایسا کچھ نہیں کہا۔

یونیورسٹی کے اندر اور دروازے کے سامنے باہر کھڑے ہو کر بھی سگریٹ پینا ممنوع ہے۔ لوگوں کو پتہ نہیں کتنے دور جا کر سخت سردی میں سگریٹ پینی پڑتی تھی۔ بڑی تکلیف ہوتی تھی لوگوں کو لیکن لوگ قانون کی پاسداری کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لندن کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں جسم فروشی یعنی prostitution  کا کاروبار کرنے والی خواتین کو اگر گاہک کو نمبر دیتے ہوئے دیکھ لیا تو پولیس پکڑ  لیتی۔ حالانکہ اس کام کی اجازت وہاں کا قانون دیتا ہے لیکن پبلک میں اس قسم کا کوئی بھی عمل چاہے وہ صرف اگلے کو اپنے بارے میں بتانا ہی کیوں نہ ہو، جرم ہے۔

امریکہ کی زیادہ تر ریاستوں میں شراب کھلے عام پینے پر پاپندی ہے۔ کیلیفورنیا میں پینل کوڈ 647f کے تحت پبلک مقامات پر شراب پی کر بلکل نشے کی حالت میں آنے کو misdemeanor offence سمجھا جائےگا اور اس سے مراد یہ ہے کہ یہ قابل سزا ہے اور آپ کو 12 ماہ سے کم کا عرصہ سزا کے طور پر جیل میں گزارنا ہوگا۔ ساتھ میں ہزار ڈالر سے کم کا جرمانہ بھی ہوگا۔

یہاں تک کے اگر شراب کی بوتل خریدنی ہو تو کھلے عام سڑک پر لے کر نہیں پھر سکتے۔ قانون کے تحت وہ بوتل آپ کو خاکی لفافے میں ڈال کر دی جاتی ہے۔ بہت سے ممالک میں عوامی جگہوں پر ان معاشروں میں شراب پینا ممنوع ہے۔ کئی ممالک میں پینے والے صرف اپنے گھر کی چار دیواری میں یا ان جگہوں پر پی سکتے ہیں جہاں شراب دی جاتی ہے یعنی clubs, pubs  وغیرہ۔

سکاٹ لینڈ میں بس، ٹرین یا کوچ میں شراب پینا غیرقانونی ہے۔ برطانیہ کے ایک مشہور سوپر سٹور نے والدین جو کہ اپنے بچوں کے ساتھ سٹور آکر شراب خرید رہے تھے ان کو بیچنے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ برطانیہ میں کم عمر نوجوانوں میں شراب نوشی کا زیادہ ہونا تھا۔ ان کو لگتا تھا اور کئی واقعات میں یہ انکشافات بھی ہوئے کہ والدین اپنے چھوٹے بچوں کو شراب پینے کی اجازت دے دیتے تھے۔

برطانیہ میں شراب پینے کے حوالے سے آگہی کی متعدد مہم چلیں کیونکہ ان کی نظر میں یہ ان کے لیے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ تو یہ تو ثابت ہوا کہ دنیا میں ایسا کوئی معاشرہ نہیں ہے جہاں پابندیاں نہ ہوں۔ وہ ایک خواب کی دنیا ہی ہوگی جہاں سب مادر پدر آزاد ہوں۔

یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں پاکستان میں لوگوں کو بہت غلط فہمیاں ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان ممالک میں جس کی جہاں مرضی جتنی شراب چاہے پی لے۔ خواتین کے ساتھ دیگر معاملات بھی بہت عام ہوں گے کیونکہ ان لوگوں کی روایات اور اقدار کوئی نہیں ہیں۔ تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ وہاں بھی ماں باپ اپنے بچوں کے گھر آنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں، اپنے بچوں کے ہاتھ میں چھوٹی عمر میں موبائل نہیں تھما دیتے، پڑھائی کے حوالے سے دوستوں کے حوالے سے پابندیاں لگاتے ہیں۔

انہی ممالک سے ایک نیا لفظ آیا تھا جو کہ ہے ’parental guidance‘ جسے پی جی 16 یا پی جی 18 بھی کہتے ہیں۔ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ جو والدین چاہیں گے اور ٹھیک سمجھیں گے ان کے بچے ٹی وی پر صرف وہی دیکھیں گے۔ فلمیں اور ڈرامے بنانے والوں کا یہ لفظ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس فلم یا ڈرامے میں ایسا مواد ہے جو چھوٹی عمر کے افراد کے لیے مناسب نہیں ہے۔

اب کہنے کو یہ بھی ایک پابندی ہے لیکن وہاں پر شعور ہے۔ ہمارے ہاں شعور اس قدر کمی ہے کہ جو ہمیں جس طرف لگائے ہم اپنا صحیح غلط سوچے بغیر ہی اس طرف چل پڑتے ہیں۔

ایک بڑا مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ ہمارے دو طبقے خاص طور پر مذہبی اور لبرل دونوں خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور دوسرے کی بات سننا بھی انہیں گوارا نہیں۔ ایک خود کو آزاد کہتا ہے، ’آزادئ اظہار رائے کا حق سب کے لیے‘ کی بات کرتا ہے، سب کو تحمل سے سننے کا دعوی کرتا ہے لیکن اصل میں اتنا ہی تنگ نظر ہے اور دوسرے کا موقف سننا ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا خود کو دین کا ترجمان کہتا ہے لیکن بہت مرتبہ عوام کو دین کے حوالے سے گمراہ کرتا ہوا پایا جاتا۔ اس میں بھی غلطی پھر ہماری ہی ہے کہ ان کی داڑھی دیکھ کر اور ٹخنوں سے اوپر شلوار دیکھ کر ہم نے سارا اپنا دین ان کو outsource  کر دیا اور خود توفیق نہیں ہوئی کہ دین کے بارے میں پڑھیں۔ اس لیے یہاں کچھ بھی ہو یا نہ بھی ہو تو پہلی بات جو سننے کو ملتی ہے وہ یہ کہ اسلام کو خطرہ ہے اور ہمارے لوگ یہ بات مان بھی لیتے ہیں کیونکہ خود دین پڑھا جو نہیں۔ جو ملک اسلام کے نام پر بنا اس میں اسلام کو کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔

پابندیوں کی جہاں تک بات ہے تو ہم نے خود بھی اپنے اوپر بہت سی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اپنے گھر میں داخل ہوتے ہیں بچے ہوں یا نہ ہوں گھر میں ہم گالیاں نہیں دیتے، حالانکہ ہمارے معاشرے میں گالی بڑی عام ہے اور کئی جگہوں پر انگریزی کی گالیاں خاص طور پر ف سے شروع ہونے والے لفظ کو تو بڑا cool  سمجھا جاتا ہے لیکن گھر میں ہم وہ الفاظ استعمال نہیں کرتے۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں دو تین چیزوں کے بین ہونے کی خبریں گردش میں رہیں۔ ان میں سے ایک ہے بسکٹ کا اشتہار۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پہلا ایسا اشتہار تھا جس میں خواتین ناچ رہی ہیں؟ نہیں، ایسے تو بیسیوں اشتہار آتے رہے ہیں، موبائل فونز کے، ٹی سویٹنرز کے، ٹیلی کام کمپنیوں کے۔ تو پھر اس پر کیوں پابندی لگائی گئی؟ کیا اس میں مہوش حیات تھی اس لیے اس پر پابندی لگائی گئی؟ تاہم مہوش تمغہ امتیاز سے نوازے جانے کے بعد بھی تنقید کی زد میں رہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ پیمرا نے پچھلے اشتہاروں پر پابندی کیوں نہیں لگائی؟ صرف اس ہی پر کیوں؟ کیا پیمرا کے پاس طے کیے ہوئے کوئی قواعد و ضوابط موجود ہیں جو یہ بتائیں کہ کس قسم کا مواد ٹی وی پر نہیں چلےگا؟ جب ایک مولوی کنٹینر پر کھڑا ہو کر ملک کے وزیر اعظم کو قادیانی اور یہودی لابی کہہ رہا تھا اور کم پڑھے لکھے اور شعور سے لاتعلق طبقے کو اشتعال دلا رہا تھا، یہ احساس دلا کر کہ تم لوگوں کا وزیر اعظم تو جیسے کافر ہے تو کیا اس وقت پیمرا نے وہ تقاریر یا اس سیاست دان کا ٹی وی پر دکھائے جانے پر پابندی لگائی تھی؟

نہیں، یہ جانتے ہوئے کہ اس ملک میں کافر کافر کہہ کہہ کر قتل و غارت گری کی گئی ہے لیکن اس پر پیمرا خواب غفلت سے نہ جاگا۔ حقیقت یہ ہے کہ پیمرا چلانے والے لوگ بھی وہی لوگ ہیں جو خود بھی شعور سے کوسوں دور ہیں۔ جنہوں نے کبھی کسی مواد کو غور سے نہ تو دیکھا ہے نہ سمجھا ہے۔ جن کو یہ نہیں پتہ کہ دنیا میں کیسا مواد ٹی وی پر چلتا ہے، پاکستان میں کیسا چلنا چاہیے۔ نہ کوئی قاعدہ ہے اس کا پیمرا میں اور نہ ہی کسی قاعدے کے تحت یہ کارروائی ہوتی ہے۔

آغاز میں برطانیہ اور امریکہ کا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے کرتا دھرتا یہ بات سمجھ سکیں کہ پابندی لگانے کا بھی کوئی جواز، کوئی طریقہ اور کوئی منطق ہوتی ہے۔ پابندی اس وقت لگائیں جب واقعی کوئی قانون کی پامالی کرے، جذبات کو اشتعال دلانے والا مواد ہو، عوام کے جذبات مجروح ہوں لیکن کم از کم آپ کی پابندی سے معذرت کے ساتھ ایسا تاثر ملتا ہے جیسے صبح جاگے موڈ ہوا، چلو بھائی پابندی لگا دو، بسکٹ کا اشتہار ٹی وی پر نہ چلے۔

پاکستان میں جو ہوتا ہے انفرادی سوچ کے تحت ہوتا ہے۔ کسی کام کے کرنے کا کوئی سسٹم کوئی باقاعدہ طریقہ متعین نہیں کیا گیا۔ اس لیے جتنی مرضی پابندیاں لگا دو نہ پابندیوں کا وہ فائدہ ہونا ہے جو دیگر ممالک میں ہوتا ہے اور نہ نقصان سے کوئی بچت ہو سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ