کشمیر کا ’پینسل گاؤں‘

پلوامہ کے گاؤں اوکھو سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی پینسل فیکٹری کو سلیٹس فراہم کی جاتی ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سابق گرمائی دارالحکومت سری نگر کے جنوب میں 22 کلومیٹر دور ضلع پلوامہ میں ایک چھوٹا سا گاؤں اوکھو ہے۔

اس گاؤں میں ’برکت ملز‘ کے نام سے 1981 میں قائم ہونے والی ایک فیکٹری کے مالک فیروز احمد کا کہنا ہے کہ باہر کی دنیا کے علاوہ خود کمشیر میں بہت کم لوگ اس گاؤں کی پہچان یعنیٰ پینسل سلیٹس (پینسل میں استعمال ہونے والی لکڑی) کی تیاری سے واقف ہیں۔ فیروز اس فیکٹری سے پہلے بڑھئی، پھلوں کی پیٹیوں اور فرنیچر بنانے کا کام کرتے تھے۔

انہوں نے کہا: ’2011 میں ہم نے پنسل بنانے والی بھارتی کمپنی ’ہندوستان پنسل‘ کو لکڑی کے بلاکس کی فراہمی شروع کی اور پھر 2014 میں سلیٹس بنانے کا سارا عمل یہاں کیا گیا جسے پیک کرکے ٹرکوں کے ذریعے بھارت بھیجا جاتا ہے۔‘

کشمیر میں واقع ان فیکٹریوں سے ’ہندستان پنسل‘ کو تقریباً 60 سے 70 فیصد خام مال فراہم کیا جاتا ہے، جو ’نٹراج‘ اور ’اپسرا‘ برانڈ کے نام سے پینسل بناتی ہے۔ یہ دنیا میں دوسری سب سے زیادہ پنسل تیار کرنے والی کمپنی ہے۔

یہ سلیٹس خاص طور پر چنار کے درختوں سے تیار کی جاتی ہیں، جو کشمیر میں اور خاص طور پر پلوامہ ضلعے کے نمی والے علاقوں میں باکثرت پائے جاتے ہیں۔ پنسل بنانے کے لیے اس لکڑی میں نمی کی موزوں مقدار موجود ہوتی ہے۔

فیروز احمد فیکٹری کے دفتر میں بیٹھے ہوئے ایک چھوٹی سی ایل سی ڈی سکرین پر کیمروں کی مدد سے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج فیکٹری میں کام ٹھپ پڑا ہے کیوں کہ کووڈ19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے سکول بند ہیں اس لیے ہمیں آرڈر بھی نہیں مل رہے۔ ’ہمارے پاس تقریباً 100 مزدور کام کرتے ہیں، جن میں زیادہ تر مقامی مرد و خواتین ہیں۔ لکڑی کے تختوں کو مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد سلیٹس میں تبدیل کیا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کاک پورہ کے قریبی گائوں میں رہنے والی رافعہ جیسی خاتون کارکن سلیٹس بنانے کے عمل میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ رافعہ بتاتی ہیں کہ وہ روزانہ صبح نو بجے فیکٹری میں کام کرنے آتی ہیں اور شام پانچ بجے دوسری خواتین کارکنوں کے ساتھ روانہ ہوجاتی ہیں۔

فیروز کے مطابق اس فیکٹری کی افرادی قوت 70 فیصد خواتین پر مشتمل ہے کیونکہ وہ معیار کی جانچ میں مردوں سے زیادہ درست اور متحرک ثابت ہوتی ہیں۔ رافعہ کا کہنا ہے کہ وہ مختلف مشینوں پر کام کرتی ہیں اور اس دوران سب سے اہم بات یہ ہے کہ خراب سلیٹ کی نشاندہی کر کے اسے باہر نکالتی ہیں۔

’ہم دنیا کے دیگر مقامات اور حصوں کے مردوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ بہت سے دیہاتوں میں ایسی فیکٹریاں قائم ہیں جہاں خواتین کو کام کرنے کا موقع ملتا ہے اور اچھی روزی کما لیتی ہیں۔‘

فیروز کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر کے اس گاؤں میں اسی طرح کے ایک درجن کے قریب کارخانے ہیں۔ ’ہمارے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ اس صنعت کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں بجلی کی ضرورت ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت ہمیں بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنائے کیونکہ یہ صنعت ہزاروں افراد کو روزی فراہم کرتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا