صوابی کے عبدالرحمن جنہوں نے خیبر پختونخوا میں حنوط کاری کا فن زندہ رکھا

صوبے کے واحد سرکاری حنوط کار عبدالرحمن چھتیس سالوں سے پرندوں اور جانوروں کی حنوط کاری کا کام کر رہے ہیں۔

ضلع صوابی کے علاقے گندف سے تعلق رکھنے والے عبدالرحمن نایاب جنگلی جانور اور پرندوں کو مرنے کے بعد حنوط کرکے وائلڈ لائف میوزیم میں رکھ لیتے ہیں۔

اب تک سینکڑوں نایاب جانور اور پرندے حنوط کرکے محکمہ وائلڈلائف کے میوزیم میں رکھے جا چکے ہیں اور انہیں دیکھنے کے لیے عام شہریوں کے علاوہ سکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات بھی آتے ہیں۔

عبدالرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں بچپن سے پرندے پالنے کا شوق تھا اور وہ گھر میں طوطے اور تیتر پالتے تھے۔

اسی سے انہیں مرنے والے پرندوں کو حنوط کرنے کا بھی شوق پیدا ہوا جس کے لیے لاہور میں اورنگزیب نامی ایک استاد سے انہوں نے حنوط کاری کا باقاعدہ طریقہ سیکھا اور ان کی لیبارٹری میں ان کے ساتھ کام کیا۔

عبدالرحمن نے بتایا کہ وہ پچھلے چھتیس سالوں سے پرندوں اور جانوروں کی حنوط کاری کا کام کرتے ہیں۔ چھ سال انہوں نے باہر کام کیا اور تیس سال وائلڈام  لائف ڈیپارٹمنٹ میں کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ کسی اور نے تو مجھ سے کام نہیں سیکھا بس اپنے بیٹے احسان اللہ کو سکھایا ہے۔ ان کے گاؤں صوابی گندف میں اگر کسی کا پرندہ تیتر، مور وغیرہ مر جائے تو وہ گاؤں کے لوگوں کی خواہش پر اسے حنوط کرلیتے ہیں۔

لوگ کیوں پرندوں کو حنوط کرتے ہیں؟

عبدالرحمن نے کہا کہ جب کوئی پرندہ پالتا ہے تو وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اگر پرندہ مر جائے تووہ افسردہ ہوتا ہے۔

'میں نے اس طرح کے کئی واقعات دیکھے ہیں کہ کسی کا طوطا مرا ہو تووہ رو رہا ہوتا ہے اور پاس آکر کہتا ہے کہ میرے اس طوطے کو حنوط کردو۔ ایک گاؤں  میں میرے بیٹے احسان کے پاس ایک لڑکا آیا اور طوطا مرنے پر رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اس طوطے کو آج ہی مجھے حنوط کرکے دے دو جبکہ  اس عمل پر ہفتہ دس دن لگتا ہے لیکن وہ بتارہا تھا کہ ہر حالت میں مجھے آج ہی دو کیونکہ یہ طوطا میرے ساتھ رات کو بھی ہوتا تھا اور اس کے بغیر نہیں سو سکتا تو بڑی مشکل سے اس مرے ہوئے طوطے کو حنوط کرکے اسی دن دے دیا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبہ خیبرپختونخوا کے واحد حنوط کار عبدالرحمن نےکہا کہ پشاور میں بنائے گئے وائلڈ لائف میوزیم میں 250 کے قریب پرندے اور جانور حنوط کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے محکمے کے انفارمیشن سنٹر ڈونگا گلی، مانسہرہ اور کوہاٹ کے لیے بھی جانوروں کو حنوط کرکے دیا ہے۔ بعض اوقات سکولوں کے مطالبے پر ان کی لیبارٹریوں کے لیے بھی وہ جانوروں کو حنوط کر کے دیتے ہیں۔

عبدالرحمان نے بتایا کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ابھی تک کوئی دوسرا حنوط کار نہیں دیکھا اور نہ وائلڈلائف محکمے نے کسی اور شخص کو ٹریننگ دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حنوط کاری سکھانے کا کوئی ادارہ بھی نہیں ہے البتہ وائلڈلائف والے پشاور میں واقع چڑیا گھر میں ایک سکول بنا رہے ہیں جس میں حنوط کاری کا ہنر سکھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری سطح پر تو کوئی پذیرائی نہیں ہوئی لیکن ثقافتی میلوں اور مختلف سکولوں میں سٹال لگا کرحصہ لیا ہے جس میں درجنوں توصیفی سرٹیفکیٹ حاصل کیے ہیں ۔

حنوط کارعبدالرحمن نے بتایا کہ حنوط کرتے وقت اگر پرندے کی حالت صحیح ہو اور اچھے میٹریل سے حنوط کیا جائے تو سالہا سال خراب نہیں ہوتا۔ اچھے میٹریل سے ایک جانورکی حنوط کاری پر ساٹھ ہزار روپے تک خرچہ آتا ہے۔ 

انہوں نے کہا 'کچھ سمجھ دار لوگوں کے پاس اگر کوئی نایاب جانور مرجائے تو وہ بھی میوزیم کے لیے دے دیتے ہیں جس میں ہمارے پاس موجود بہت نایاب پرندہ ویسٹرن ہارنڈ ٹریگوپان بھی ہے جو ایک شخص نے لاکردیا تھا، اب میوزیم میں پڑا ہے جبکہ گذشتہ ماہ بہت نایاب ایک برفانی چیتا جو کہ مرا ہوا تھا اس کو حنوط کرکے پشاور کے چڑیا گھر میں رکھ دیا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ محکمہ وائلڈ لائف میں حنوط کاری کی ایک ہی پوسٹ ہے، اس کے ساتھ ایک اسسٹنٹ بھی بھرتی کرنا چاہیے تاکہ کام میں آسانی ہو جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن