پاکستانی ڈرامے دیکھ کر ڈپریشن ہو جاتا ہے: خاتونِ اول ثمینہ علوی 

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک تفصیلی اور شاید اپنی نوعیت کے پہلے غیر سیاسی انٹرویو میں بیگم ثمینہ عارف علوی نے ایوان صدر میں آمد اور اب تک کے قیام، ملک میں جنسی زیادتی کی روک تھام، کراچی کی صورت حال اور ارطغرل سمیت پاکستانی ڈراموں پر بات کی۔

اسلام آباد میں واقع ایوان صدر کی عالیشان عمارت باہر سے جتنی وسیع و عریض ہے اندر سے اتنی ہی پراسرار بھی ہے۔ اس کے اندر پاکستان کی تقدیر کے کتنے اہم فیصلے اور ملاقاتیں ہوئی اس کی گواہ یہاں کے بڑے سجے سجائے کمرے اور درو دیوار ہیں۔  

2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد تحریک انصاف کے کراچی سے رہنما ڈاکٹر عارف علوی کے لیے یہ فیصلہ بہت مشکل تھا کہ وہ قومی اسمبلی جائیں یا ایوان صدر۔   

ان کی اہلیہ بیگم ثمینہ عارف علوی بھی کہتی ہیں کہ ابتدا میں وہ ایوان صدر جانے کے حق میں نہیں تھیں۔ اس کی وجہ وہ ذاتی سے زیادہ کچھ نہیں بتاتیں لیکن اتنا ضرور کہتی ہیں کہ انہیں خدشہ تھا کہ یہاں آ کر وہ عوام کی خدمت شاید نہ کر سکیں۔  

خیر یہاں بظاہر ڈاکٹر عارف علوی کی رائے مقدم رہی اور میاں بیوی میں 12 دن کا تنازع خوش اسلوبی سے طے ہوا۔  

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک تفصیلی اور شاید اپنی نوعیت کے پہلے غیر سیاسی انٹرویو میں بیگم ثمینہ عارف علوی سے ایوان صدر میں آمد اور اب تک کے قیام کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہاں آنا بہت اچھا لگا۔   

’ایوان صدر تو ایک طرف لیکن میں نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں اتنا بڑا موقع دیا۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم یہاں آئیں گے۔ یہ تو ٹرانزیشن ہے یہ ہمارا گھر تو نہیں ہے۔‘  

پنک اکتوبر کی مناسبت سے پنک لباس میں ملبوس بیگم ثمینہ تاہم اس بارے میں واضح تھیں کہ وہ یہاں ایک عوامی ذمہ داری کے تحت آئے ہیں۔ ’جب اللہ تعالی نے اتنا بڑا مقام دیا ہے تو اس بارے میں سوال و جواب بھی ہو گا۔ ایوان صدر انجوائے کر کے آئیں یا کچھ کام بھی کیا۔‘  

وہ کہتی ہیں کہ ایوان صدر کی دیکھ بھال کے لیے لوگ تو ہیں لیکن وہ اس میں ذاتی دلچسپی بھی لیتی ہیں۔ ’میں جب یہاں آئی تو حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ دیکھ بھال اچھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ جگہ نظرانداز شدہ تھی ۔ تو میں نے مرمت کروائی اور زیادہ ہریالی کا بندوبست کیا۔‘  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی خاتون اول کو معلوم ہے کہ ملکی معاشی صورت حال کوئی زیادہ اچھی نہیں لہٰذا اس عمارت پر موجودہ حالات میں زیادہ پیسہ خرچ نہیں کیا جا سکتا۔ ’کفایت شعاری کر کے پھلوں کے درخت لگوائے تاکہ آنے والی نسلیں فائدہ اٹھا سکیں۔‘  

ایوان صدر کی کوئی بات کھٹکتی بھی ہے؟ اس پر ان کا جواب تھا کہ ایسا کچھ نہیں لیکن ہاں دیکھ بھال نہیں تھی۔ ’دنیا آتی ہے یہاں پاکستان کی چیز ہے تو اچھا دکھنا چاہیے۔ میں نے یہاں کافی ٹیبلز پر پاکستان کی دلکشی پر مبنی کتابیں رکھوائیں تاکہ دوسرے ممالک کے لوگ اور سفیر یہاں کی خوبصورتی دیکھ سکیں۔‘  

تحریک انصاف کی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایوان صدر کو عوام کے لیے بھی کھولا گیا، جو کہ حکومت کے سرکاری عمارتوں تک عوام کی رسائی کے منصوبے کا حصہ تھا۔ لیکن سکیورٹی اہلکاروں کے انکار کی وجہ سے خاتون اول کے ساتھ ایوان کی سیر ممکن نہ ہو سکی۔   

ثمینہ علوی ماضی کی فرسٹ فیملی سے کیسے مختلف ہیں، عملہ کیا کہتا ہے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہیں گی کیونکہ ہر کسی کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ ’نہ میں پوچھتی ہوں۔ اگر کوئی بتا دے تو بتا دے، میں نہیں پوچھتی۔‘  

دنیا میں فعال خواتین اول زیادہ تر امریکہ سے ہی دکھائی دیتی ہیں۔ بیگم ثمینہ کا کہنا تھا کہ انہوں سابق امریکی خاتون اول مشیل اوباما کی کتاب پڑھی اور ان کی یہ بات پسند آئی کہ ان کی بھی ورکنگ کلاس فیملی تھی اور علوی خاندان بھی ایسا ہی ہے۔ ’انہوں نے بھی بچوں پر توجہ دی اور میں بھی یہی کرتی رہی ہوں۔ ہم کوالٹی ٹائم نہیں بلکہ زیادہ ٹائم بہتر مانتے ہیں۔‘  

ثمینہ علوی خود پبلک لائم لائٹ سے دور رہی ہیں لیکن فلاحی تنظیموں، شوہر کے کلینک اور انتخابی مہمات میں بھرپور حصہ لیتی رہی ہیں۔ خود وہ ہاؤس وائف رہیں لیکن اپنے تینوں بیٹیوں اور ایک بیٹے کو ڈاکٹر بنایا اور اب ان سے پریکٹس بھی کروا رہی ہیں۔  

ترکی کی مقبول ڈراما سیریز ’ارطغرل‘ کی تعریف صدر اور ان کی بیگم دونوں نے ماضی میں کی تھی۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ نے ساری سیریز دیکھ لی تو وہ کہتی ہیں تمام نہیں ’تھوڑی بہت‘ دیکھی ہے اور وہ بھی کرونا لاک ڈاؤن کے دوران۔  

تاہم انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستانی ڈرامے یکساں موضوعات کی وجہ سے بالکل نہیں دیکھتیں۔ ’پاکستانی ڈرامے سے مجھے ڈپریشن ہونے لگتا ہے۔ کوئی ڈھنگ کی بات نہیں ہوتی۔ ان سے بات کی تو کہتے ہیں دیگر موضوع ریٹنگ نہیں دیتے لیکن میرے خیال میں آپ اچھی چیز بنائیں گے تو لوگ ضرور سراہیں گے۔‘

وہ اس بات سے متفق تھیں کہ ڈراموں کے موضوعات تبدیل ہونے چاہییں۔  

البتہ اس کی جگہ وہ ٹاک شوز ابھی بھی باقاعدگی سے دیکھتی ہیں، تاہم یہاں بھی انہیں منفیت کی شکایت ہے کہ کوئی ہمت بندھانے کی بات نہیں کرتا۔  

آبائی شہر ہونے کی وجہ سے بیگم ثمینہ عارف علوی کو کراچی کی فکر رہتی ہیں۔ ’مجھے کراچی کا بھی غم رہتا ہے تو اکثر میں صدر صاحب سے کہتی ہوں کہ آپ یہ بات کریں ایسا کریں تو ایک مرتبہ انہوں نے کہا میں نہیں جاتا آپ اس اجلاس میں چلی جائیں۔‘  

ملک میں جنسی زیادتی کے واقعات پر انہیں بھی شدید تشویش ہے اور کہتی ہیں کہ ماسوائے کسی سخت اقدام کے اس پر شاید قابو نہ پایا جا سکے۔ ’ہمیں کوئی ایسا مضبوط قدم لینا چاہیے جس سے آدمی کو شاک لگے۔‘ تاہم یہ شاک یا دھچکہ کس قسم کا ہو سکتا ہے اس کی انہوں نے وضاحت نہیں کی۔  

ایوان صدر سے جاتے وقت انہیں کیسے یاد رکھا جائے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’ابھی تو کچھ نہیں کیا لیکن آگے چل کر اگر ملک کے لیے کچھ کر سکیں تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر