کشمیر کی سیاسی جماعتیں پوائنٹ آف نو ریٹرن پر

بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کر کے کشمیر میں ہندوستان کی نام لیوا سیاسی جماعتوں کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لا کھڑا کیا ہے۔

بھارتی سکیورٹی اہلکار ایک کشمیری نوجوان کو گرفتار کر رہے ہیں (فائل تصویر:  اے ایف پی)

تقسیم برصغیر کے بعد بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں دو طرح کی سیاست ہوتی آئی ہے۔ ایک سیاست جو استصواب رائے کی بات کرتی ہے ان کو حریت پسند کہا جاتا ہے جبکہ ہندوستان میں انہیں علیحدگی پسندوں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

علیحدگی پسند کا لفظ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ آئین ہند کو اپنا دستور نہیں مانتے۔ ان میں بھی کئی دھڑے ہیں جو مختلف نظریات کے حامل ہیں۔ مثلاً حریت کانفرنس (ع)، حریت کانفرنس (گ)، جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ اور جموں و کشمیر ڈیمو کریٹک فریڈم پارٹی وغیرہ۔

دوسرا سیاسی طبقہ وہ ہے جس کو مین سٹریم یا قومی دھارے کی سیاست کہا جاتا ہے۔ اس فہرست میں وہ تمام شامل ہیں جو آئین ہند کو اپنا دستور مانتے ہیں، ہمیشہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کا علم بلند کرتے آئے ہیں اور ہندوستان کے آیئن کی بات کرتے ہیں۔

جموں و کشمیر کے دونوں سیاسی مکاتبِ فکر میں جو چیز مشترک ہے وہ ہے جموں و کشمیر کا مستقل حل اور دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس کے تین فریق ہیں۔ اول، جموں و کشمیر کے عوام، دوسرا ہندوستان اور تیسرا پاکستان۔

دونوں گروہ ہمیشہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بات چیت کے حامی رہے ہیں۔ نئی دہلی کی طرف سے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے بعد پہلا طبقہ مسلسل خاموش ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حریت قیادت کے خلاف پانچ اگست 2019 سے پہلے ہی کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا تھا۔

یاسین ملک تہاڑ جیل میں ہیں اور ان کی تنظیم جے کے ایل ایف کو حکومت ہند نے غیر قانونی بتا کر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی جو کہ علی شاہ گیلانی کے کافی قریب سمجھی جاتی ہے، اس پر بھی پابندی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاموشی کے پیچھے دوسرا راز یہ ہے کہ چونکہ جموں و کشمیر کو آئین ہند میں جو خصوصی آئینی مراعات حاصل تھیں وہ مین سٹریم کا اثاثہ تھیں۔ حریت پسند طبقہ ہمیشہ آئین ہند کا منکر رہا ہے، اسی لیے خصوصی پوزیشن ختم ہونے پر زیادہ جذباتی نہیں ہوا۔ یہ ہمیشہ سے الیکشن لڑنے سے بھی انکار کرتے آئے ہیں کیونکہ ان کے بقول آیئن ہند کے تحت انتخابات میں حصّہ لینے کا مطلب ہے کہ آپ نے ہندوستان کو قبول کر لیا ہے۔

سیاسی طور پر 370 اور 35 اے کی منسوخی کا سب سے زیادہ جھٹکا جموں و کشمیر کی مین سٹریم سیاسی جماعتوں کو لگا ہے۔ جموں و کشمیر کی نوعیت چونکہ بھارت کی دیگر ریاستوں سے مختلف ہے اس لیے یہاں قومی دھارے کی سیاست بھی مختلف ہوتی ہے۔

اول تو اقوام متحدہ کی قرادادوں کی روشنی میں جموں و کشمیر متنازع علاقہ ہے۔ دوم 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کو پوری طرح سے ہندوستان کے حوالہ کرنے کے بجائے مشروط الحاق کیا تھا۔ آئین ہند کے دفعات 370 اور 35 اے اسی ’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘ کی توثیق تھے۔ 370 کے تحت جموں و کشمیر کا اپنا آئین اور جھنڈا تھا۔

اگر یوں کہا جائے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن وہ ہتھیار تھا جس کو ڈھال بنا کر ہند نواز سیاسی جماعتیں عوام میں سیاست کرتی تھیں تو بے جا نہ ہو گا۔ نئی دہلی نے اس کو ہٹا کر پبلک میں ہندوستان کی نام لیوا سیاسی جماعتوں کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر کھڑا کیا ہے۔

ساڑھے 14 ماہ نظر بندی کے بعد محبوبہ مفتی کی رہائی کے دو دن بعد ایک بار پھر ہند نواز سیاسی جماعتیں گپکار میں سر جوڑ کر بیٹھیں۔ میٹنگ کے آخر میں اس اتحاد کو قومی اتحاد برائے گپکار کا نام دیا گیا۔ اس الائنس کا اصل مقصد جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن بحال کرنا ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن بحال ہوئے بغیر مین سٹریم سیاستدانوں کے لیے عوام میں جانا انتہائی دشوار ہو گا۔ اس لیے ان کے لیے یہ نا گزیر ہو چکا ہے کہ وہ یہ لڑائی لڑیں۔

فاروق عبداللہ نے تو ایک انٹرویو میں یہ تک کہہ دیا کہ 370 چین کی مدد سے بحال ہو گا۔ اسی طرح محبوبہ مفتی نے رہائی کے بعد پانچ اگست والے اقدام کو جموں و کشمیر کے عوام پر ڈاکہ زنی سے تعبیر کیا اور اس کے خلاف لڑنے کا عندیہ دیا۔ بھارت کے سابق وزیر خزانہ و داخلہ کانگریس کے سینیئر رہنما راجیہ سبھا ممبر پی چدمبرم نے نئے پیپلز آلائنس فار گپکار کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

گذشتہ سال کے حکومت کے اس فیصلے نے تمام مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کیا ہے۔ جموں و کشمیر کے لیے 370 یا اس کے برابر کا خصوصی درجہ اس لیے ضروری ہے تاکہ یہاں کی آبادی کے تناسب کو تبدیل نہ کیا جا سکے۔

خصوصی پوزیشن کی غیر موجودگی میں آبادی کا تناسب اگلے دس سالوں میں تبدیل ہو جائے گا۔ گپکار اعلامیہ کا نام پیپلز آلائنس رکھنا بہت ہی موزوں اور اہمیت کا حامل ہے۔ بعض تجزیہ کار گپکار نام رکھنے پر اس لیے تنقید کرتے تھے کہ کچھ تنگ نظر سوچ کے حامل عناصر اس سے یہ تاثر پھیلا سکتے ہیں کہ خدانخواستہ یہ اعلامیہ ایک مخصوص علاقے کی نمائندگی کر رہا ہے۔

اس کا نام عوامی اتحاد رکھ کر مین سٹریم سیاسی پنڈتوں نے پورے جموں و کشمیر کے شہریوں کو اس میں شمولیت کا کھلا دعوت نامہ دے دیا ہے کہ آئیں، اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ