نواز شریف واپسی کی حکومتی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں: ماہرین

قانونی ماہرین کی آرا میں اس سلسلے میں اتفاق پایا  گیا کہ نواز شریف کے پاس سب سے آخری حربہ برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش ہو گا جس کے لیے  ان کے پاس کافی مواد موجود ہے۔

(اے ایف پی)

تحریک انصاف وفاقی حکومت کی جانب سے مسلم لیگ نواز کے رہنما میاں محمد نواز شریف کو برطانیہ سے پاکستان واپس لانے کی کوششوں کو سعی لاحاصل قرار دیتے ہوئے برطانوی قانونی ماہرین سابق پاکستانی وزیر اعظم کی پاکستان کو حوالگی کو بعید از قیاس سمجھتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لیے  عمران خان حکومت کی کوششوں کی کامیابی کے امکانات جاننے کے لیے لندن میں مقیم اور پریکٹس کرنے والے سینئر پاکستانی نژاد وکلا سے گفتگو کی۔

برطانوی عدالتوں میں انسانی حقوق اور امیگریشن کے مقدمات کا 20 سالہ تجربہ رکھنے والے محمد اسلام خان کا کہنا تھا کہ حوالگی (ایکسٹراڈیشن) سے متعلق معاہدے کی غیر موجودگی میں نواز شریف کو برطانیہ سے ایکسٹراڈائٹ (پاکستان کے حوالے) کیا جانا ممکن نہیں نظر آتا۔

’اور ڈیپورٹیشن (جلاوطنی) ایک بہت طویل قانونی عمل ہے جس میں نواز شریف صاحب کے پاس کئی آپشنز موجود ہیں جنھیں وہ یقینا بھرپور طریقے سے استعمال کریں گے۔‘

قانونی ماہرین کی آرا میں اس سلسلے میں اتفاق پایا  گیا کہ نواز شریف کے پاس سب سے آخری حربہ برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش ہو گا جس کے لیے  ان کے پاس کافی مواد موجود ہے۔

ان ماہرین کے خیال میں نواز شریف کی بیماری اور برطانیہ میں علاج کی غرض سے موجودگی ہر صورت ان کے حق میں جائے گی۔

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نواز شریف کی برطانیہ سے جلا وطنی (ڈیپورٹیشن) کے لیے بورس جانسن کی حکومت کو تین خطوط لکھ چکی ہے جبکہ سفارتی سطح پر بھی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس سلسلے میں آخری چٹھی برطانوی سیکریٹری داخلہ پریتی پٹیل کو بھیجی گئی تھی۔

گزشتہ سال نومبر سے برطانیہ میں مقیم نواز شریف کی واپسی کے لیے حکومتی کوششوں میں تیزی حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان جمہوری تحریک کے گوجرانوالہ کے جلسے کے بعد آئی جب انہوں نے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کے خلاف براہ راست الزامات لگائے۔

گوجرانوالہ جلسے کے اگلے روز وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ٹائیگر فورس کی تقریب سے خطاب میں نواز شریف کو واپس لانے اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا عزم ظاہر کیا۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ اور احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے ایک حالیہ انٹرویو میں امید ظاہر کی تھی کہ نواز شریف کو جلد پاکستان واپس لایا جائے گا جبکہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سابق وزیر اعظم کی واپسی کے سلسلے میں  15 جنوری کا اعلان بھی کر دیا۔

حوالگی یا ایکسٹرا ڈیشن

ایکسٹراڈیشن سے مراد کسی ملک کے قانونی شہری کو دوسرے ملک کے حوالے کیا جانا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت یہ صرف ہر دو ملکوں کے درمیان ایکسٹراڈیشن ٹریٹی (معاہدہ) کی موجودگی میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

برطانوی سپریم کورٹ کے وکیل قمر بلال ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایکسٹراڈیشن ٹریٹی موجود نہیں ہے جس کے بغیر برطانیہ کسی شخص کو ایکسٹراڈائٹ نہیں کر سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ ایسے ملکوں سے ایکسٹراڈیشن ٹریٹی نہیں کرتا جہاں سزائے موت رائج ہو۔’کیونکہ پاکستان میں موت کی سزا دی جاتی ہے اس لیے دونوں ملکوں کے درمیان ایکسٹراڈیشن ٹریٹی کے ہونے کے امکانات موجود بھی نہیں ہیں۔‘

قمر بلال ہاشمی نے مزید کہا کہ ایکسٹرا ڈیشن ٹریٹی کی موجودگی میں بھی کسی کو برطانیہ سے ایکسٹراڈائٹ کرنا بہت آسان نہیں ہوتا۔

محمد اسلام خان کا اس سلسلے میں موقف تھا کہ ایکسٹراڈیشن ٹریٹی موجود بھی ہو تو کسی کو ایکسٹرا ڈائٹ کرنے کا ایک قانونی طریقہ کار ہے جس سے پورا ہوئے بغیر برطانوی حکومت کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔

ان کا خیال تھا کہ موجودہ حالات میں برطانیہ میں حکومتی عہدیدار نواز شریف کو پاکستان کے حوالے کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے۔’برطانوی حکومت کے لیے یہ اتنا آسان اور جلدی میں کیا جانے والا فیصلہ نہیں ہے۔‘

برطانیہ میں وکالت کرنے والی عائشہ اعجاز خان نے ایک پولش باشندے کی مثال دی جو برطانوی شہری تھے اور انہیں طبی بنیادوں پر پولینڈ ایکسٹراڈائٹ نہیں کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف بھی طبی بنیادوں پر برطانیہ میں موجود ہیں اور پولش شخص کی مثال ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

جلاوطنی یا ڈیپورٹیشن

جلاوطنی سے مراد ہے جب کوئی ملک سیر یا کام کاج کے سلسلے میں آئے ہوئے کسی غیر ملکی کو اس کی حکومت کے حوالے کر دے۔

شہزاد اکبر نے ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ نواز شریف کو برطانیہ میں رائج حوالگی کے قوانین کے تحت واپس لایا جائے گا۔

محمد اسلام خان کا کہنا تھا کہ جلاوطنی مجسٹریٹ کی عدالت کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے اور جلاوطن ہونے والے شخص کو عدالت کے سامنے اپنا موقف بیان کرنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔

قمر بلال ہاشمی کا کہنا تھا کہ جلاوطنی کی صورت میں انسانی حقوق کی پاسداری سے متعلق بین الاقوامی کنونشنز اور قوانین آڑے آ سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر برطانوی حکومت نے نواز شریف کو جلاوطن کرنے کی کوشش کی تو ایسے میں وہ کئی ایک عدالتوں میں رجوع کر سکتے ہیں۔ ’یہ عدالتوں میں درخواستوں اور اپیلوں کا ایک لمبا سلسلہ ہو گا جو یورپی عدالت انصاف تک چل سکتا ہے اور اس پر طویل عرصہ لگے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عائشہ اعجاز خان نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سابق پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے ایک ایم او یو 2019 میں طے پایا تھا تاہم ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف بھی اپنے سمدھی اسحاق ڈار کی طرح برطانوی عدالت کو بتا سکتے ہیں کہ پاکستان واپسی کی صورت میں ان کے انسانی حقوق پامال ہونے کا خطرہ ہے۔

برطانوی وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقا کو بھی نواز شریف کی جلاوطنی سے متعلق پیچیدگیوں کا اندازہ ہو گا۔ ’لگتا ہے یہ تمام بیانات محض حکومت کی سیاسی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے دئیے جا رہے ہیں۔‘

محمد اسلام نے کہا کہ سابق پاکستانی وزیر اعظم عدالت اور حکومت کی اجازت سے علاج کروانے برطانیہ میں مقیم ہیں اور یہ ان کی یہاں رہنے کے لیے بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا ماضی میں برطانیہ میں علاج ہوتا رہا ہے وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور ایسی صورت میں وہ اپنے برطانوی معالج سے بڑی آسانی سے طبی وجوہات پر برطانیہ میں مزید رکنے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔

سیاسی پناہ

اسلام خان نے کہا کہ ہر کوشش کے ناکام ہونے کے بعد نواز شریف کے پاس برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی آپشن بہرحال موجود رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ اپنے سیاسی پناہ کے حق کو ثابت کرنے کے لیے نواز شریف کے پاس کافی سے زیادہ ثبوت موجود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں نواز شریف پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال، کیپٹن صفدر کا واقعہ، جج ارشد ملک کی ویڈیو اور اس جیسی بہت ساری چیزیں عدالت میں پیش کر کے اپنا نقطہ ثابت کر سکتے ہیں۔

قانونی ماہرین کے خیال میں نواز شریف کی بیماری اور علاج کی غرض سے برطانیہ میں موجودگی سیاسی پناہ حاصل کرنے کی بھی ایک وجہ بن سکتی ہے۔

سیاسی عوامل

محمد اسلام نے کہا کہ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں سیاسی طور پر ایک اہم شخصیت ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی ان کا ایک قد کاٹھ ہے۔

ان کا خیال تھا کہ اتنے اہم شخص کو اپنے ملک سے نکالنا اور پاکستانی حکومت کے حوالے کرنا برطانیہ کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا۔

اس سلسلہ میں انہوں نے کالعدم ایم کیو ایم لندن کے سربراہ الطاف حسین کی مثال دی جنہیں ان کے خیال میں انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان کے حوالے نہیں کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست