ایرانی بلوچستان: ’لوگوں کی پیاس اب شدت تک پہنچ گئی ہے‘

اسلامی مشاورتی اسمبلی میں چابہار، نکشہر، قصر گند اور کونارک کے عوام کے نمائندے، معین الدین سعیدی نے آئی ایل این اے کو بتایا کہ ’صوبہ سیستان اور بلوچستان پانی کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔‘

رکن پارلیمان کے مطابق بلوچستان میں پانی کے بہت سے منصوبے تکمیل سے پہلے ہی چھوڑ دیے گئے (تصویر: فارس نیوز ایجنسی)

برسوں سے سیستان اور صوبہ بلوچستان میں لوگوں کی بڑی تعداد پینے کے پانی کے لیے ترس رہی ہے۔ اسی بات کا ادراک کرتے ہوئے ایران کی اسلامی مشاورتی اسمبلی میں چابہار کے عوام کے نمائندے نے کہا ہے کہ ’اس خطے کے لوگوں کی پیاس اب شدت تک پہنچ گئی ہے۔‘

اسلامی مشاورتی اسمبلی میں چابہار، نکشہر، قصر گند اور کونارک کے عوام کے نمائندے، معین الدین سعیدی نے آئی ایل این اے کو بتایا کہ ’صوبہ سیستان اور بلوچستان پانی کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔‘

رکن پارلیمان کے مطابق، جنوبی سیستان اور بلوچستان کے لوگوں کے لیے پینے کے صاف پانی تک رسائی کے بحران کے حل کے لیے حالیہ برسوں میں کیے گئے اقدامات کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ علاقہ دوسرے ترقیاتی کاموں کے اعتبار سے بھی بہت پیچھے ہے اور وہاں سڑکیں تک نہیں ہیں۔ 

معین الدین سعیدی نے کہا کہ صوبے کو پانی فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر معین الدین سعیدی کی ایک ویڈیو شائع ہوئی تھی، جس میں ایک رکن پارلیمان نے سول کمیشن کے اجلاس میں بلوچستان میں ایک خاتون کی خودکشی کے بارے میں بات کی تھی جو اپنے بیٹے کو پینے کا پانی نہ کر پانے پر موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔ اس ویڈیو نے ایران میں سوشل میڈیا صارفین میں شدید رد عمل کو جنم دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعیدی نے کہا کہ اس طرح کے واقعات دیکھ کر ’مجھ جیسے لوگوں کو شرم سے مرنا جانا چاہیے۔‘ 

چابہار کے رکن پارلیمان نے مزید کہا کہ ’اس بلوچ خاتون کی خود کشی تمام عہدیداروں خصوصاً (وزارت توانائی کےعہدیداروں) کے لیے دھچکہ ثابت ہوسکتی ہے۔‘

معین الدین سعیدی نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ پانی کی فراہمی کے ان منصوبوں میں سے کچھ کو ناقص نگرانی کی وجہ سے ترک کر دیا گیا ہے، اس خطے میں پانی کی فراہمی کے ایک منصوبے کی ایک مثال پیش کرتے ہیں جس کے تحت زردان ڈیم سے نیچے واقع دیہات کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ وہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’واٹر سپلائی کمپلیکس کا ایک حصہ ‘زردان ڈیم کے بہاؤ والے 261 دیہات کو پانی کی ترسیل مکمل ہو چکی ہے، اگرچہ ٹریٹمنٹ پلانٹ میں بہت ساری پریشانیوں کا سامنا ہے اور بہت سے دیہات میں اب بھی پانی کی پریشانی ہے۔‘

مقامی لوگ گڑھوں میں بارش کا پینا اکٹھا کرتے ہیں جو انسانوں اور جانوروں مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق، سیستان اور بلوچیستان میں دریاؤں یا گرم چشموں میں 24 بچے ڈوبنے کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان