پاکستان کے کئی دیگر علاقوں کی طرح صوبہ بلوچستان میں بھی زراعت کے روایتی طریقوں کی وجہ سے نہ صرف پانی ضائع ہوتا ہے بلکہ زیر زمین پانی بھی نیچے جاتا جا رہا ہے۔
بلوچستان کا علاقہ خانوزئی سیبوں کی پیدوار کے حوالے سے مشہور ہے لیکن سیبوں کی پیداوار کے لیے پانی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جس سے یہاں پر اکثر ٹیوب ویل خشک ہو رہے ہیں۔
سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے والے جان محمد پانیزئی بھی بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے خانوزئی کے رہائشی ہیں۔
جان محمد کسی دور میں یہاں سیبوں کے باغات کے مالک تھے لیکن پانی کے بے دریغ استعمال اور ٹیوب ویلوں کی بہتات کے باعث یہ خشک ہو گئے اور انہوں نے درخت بھی کاٹ دیے۔
چند سال قبل یہاں پر انہیں چند افغان مہاجرین ملے جنہوں نے ایران سے ٹنل فارمنگ کی تکنیک سے واقفیت حاصل کر رکھی تھی۔
افغان مہاجرین نے جان محمد کو ٹنل فارم لگانے کا مشورہ دیا جسے انہوں نے بہتر مشورہ سمجھتے ہوئے اس پر عمل شروع کر دیا۔
جان محمد کہتے ہیں کہ ’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں پانی کے بے دریغ استعمال کو روکنے کے لیے محکمہ زراعت یہ قدم اٹھاتا۔‘
ان کے مطابق ’ہم نے افغان مہاجرین کی مدد سے یہ ٹنل بنائی جس پر ہمارا تقریباً 15 سے 16 لاکھ روپے خرچہ آیا جس میں اس کا فریم اور پلاسٹک استعمال ہوا۔‘
جان محمد کو ٹنل لگائے تین سال ہو گئے ہیں جو آدھے ایکڑ پر قائم ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں باغ کے مقابلےمیں زیادہ منافع مل رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابھی اس ٹنل میں جان محمد صرف کھیرا کاشت کرتے ہیں جنہیں وہ ڈریپ ایریگیشن کے ذریعے سیراب کرتے ہیں۔
اس کام کے لیے انہوں نے ٹینکی بنائی ہے اور ٹینکی سے پانی چھوڑتے ہیں۔ جس سے دس سے 15 منٹ میں آدھا ایکڑ سیراب ہوتا ہے۔
جان محمد کے بقول ’جب ہم کھیرے کا بیج لگاتے ہیں تو 40 دن بعد یہ پھل دینا شروع کر دیتا ہے۔ آدھےایکڑ میں ہر تیسرے دن 1500، 1600، 2000 کلو تک یہ فصل دیتا ہے۔‘
انہوں نے علاقے کی زراعت میں ایک نئے کام کی شروعات کی اور وہ سمجھتے ہیں اس پورے ضلع میں جتنے ٹنل نظر آ رہےہیں وہ سب ان کی پیروی کر رہے ہیں۔
گو کہ جان محمد کی ٹنل سے لوگوں کو اس طرف آنے کی رغبت ملی لیکن علاقے میں اکثر زمیندار اب بھی پرانے روایتی طریقہ طرز آبپاشی سے کاشت کاری کر رہے ہیں۔