اگر ٹرمپ اور جو بائیڈن کے ووٹ برابر ہوئے تو صدر کون ہو گا؟

امریکی صدارتی انتخاب میں خرابی کے شاید اتنے ہی راستے ہیں جتنے ڈونلڈ ٹرمپ کے کارڈ انڈیکس پر موجود سرکاری وکلا کی تعداد۔

اگر جو بائیڈن اور ٹرمپ دونوں میں سے ہر ایک نے 269 ووٹ لیے تو اس کا مطلب ٹائی ہو گا (اے ایف پی)

امریکی صدارتی انتخاب میں خرابی کے شاید اتنے ہی راستے ہیں جتنے ڈونلڈ ٹرمپ کے کارڈ انڈیکس پر موجود سرکاری وکلا کی تعداد۔

صدارتی انتخاب میں یقینی طور پر انتخابی فراڈ کے سلسلے ہوں گے جن میں غیرملکی مداخلت، مقامی اور وفاقی سطح پر مقدمہ بازی شامل ہے۔ اگر الیکٹورل کالج میں معاملات خاص طور پر الجھ گئے اور نتیجہ بری طرح متنازع ہو گیا تو ریاستی گورنر الیکٹورل کالج میں متبادل کے طور پر اپنے نمائندے نامزد کرنے کے لیے مداخلت کر سکتے ہیں۔

اگر الیکٹورل کالج اور عدالتیں 14 دسمبر کی آئینی ڈیڈلائن تک الیکشن کی بنیاد پر نئے صدر کا فیصلہ نہیں کر پاتیں تو ایسی صورت میں طریقہ کار کے مطابق ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی یا شاید وزیر خارجہ مائیک پومپیو ملک کے نئے صدر بن سکتے ہیں۔

تمام امکانات کی اپنی کشش ہے لیکن امکانات میں سب سے زیادہ پیچیدہ الیکٹورل کالج میں صدر کا کوئی فیصلہ نہ ہونا ہے۔ الیکٹرز (منتخب کنندگان) کی تعداد برابر ہونے کی صورت میں یہ انتہائی ممکن ہے کہ ہر صدارتی امیدوار 269 ووٹ حاصل کرے جب کہ صدر بننے کے لیے ووٹوں کی قطعی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے یعنی سادہ اکثریت کافی نہیں ہو گی۔

اگر جو بائیڈن اور ٹرمپ دونوں میں سے ہر ایک نے 269 ووٹ لیے تو اس کا مطلب ٹائی ہو گا اور اس طرح صدارتی انتخاب ایک 'کنٹنجنٹ الیکشن' بن جائے گا یعنی اس کا فیصلہ ارکان کانگریس کے ووٹوں سے ہو گا۔

جوئے کی آن لائن کمپنی دا بیٹ فیئر کی ویب سائٹ نے اس صورت حال کے امکان کو 33 کے مقابلے میں ایک کی نسبت سے ظاہر کیا ہے۔ ویب سائٹ ’270towin.com‘ نے سوئنگ سٹیٹس (ڈانواں ڈول ریاستوں) سے 64 ووٹوں کے کم یا زیادہ قرین قیاس مجموعے کے بارے میں بتایا ہے جو تعطل کا سبب بن سکتا ہے۔

ایسا امریکہ کی تاریخ میں تین بار ہو چکا ہے۔ آخری بار 1877 میں ہوا تھا۔

صدارتی انتخاب میں فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں معاملہ فیصلے کے لیے کانگریس کے پاس چلا جائے گا جو یہ بتائے گی کہ صدر کا انتخاب سینیٹ اور نائب صدر کا ایوان نمائندگان کرے گا۔ کانگریس کے دونوں ایوان ’نئے‘ ہونے چاہییں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کا نتیجہ ٹرمپ۔ کملا ہیرس کی عجیب انتظامیہ کی صورت میں  نکل سکتا ہے لیکن اس لیے شرط یہ ہے کہ سینیٹ رپبلکن اور ایوان نمائندگان ڈیموکریٹ ہاتھوں میں رہے۔

تاہم ایوان میں ووٹنگ کا عمل ووٹ دینے والے حقیقی 435 نمائندوں کی بجائے 50 ریاستوں کے نمائندوں کے لیے ازسر نو منظم کیا جائے گا۔ نتیجے کے طور پر صورت حال رپبلکن ارکان کے حق میں ہو جائے گی۔

تب بھی ٹرمپ اور ہیرس کی جوڑی ایک اچھا خاصا نظارہ ہو گا۔ اگر ہیرس اس صورت حال کا مقابلہ نہ کر سکیں اور انتخاب سے الگ ہو گئیں تو اس صورت میں ٹرمپ (یہ فرض کرتے ہوئے کہ وہ صدر ہیں) جسے چاہیں نامزد کر سکتے ہیں بشرط یہ کہ اس کی منظوری کانگریس کے دونوں ایوان دے دیں۔ اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ پنس واپس آ جائیں لیکن دوسرے آپشن بھی ہو سکتے ہیں۔

اب ایسی صورت میں کہ سینیٹ میں صدر کے انتخاب پر ٹائی پڑ جائے اور وہ کوئی فیصلہ نہ کر پائے تو اس طرح ’نائب صدر‘ اس وقت تک صدر بن جائیں گے جتنی دیر تک انہیں عہدے پر رکھنا سینیٹرز کے اختیار میں ہے۔ اس طرح موجودہ نائب صدر مائیک پنس صدر بنیں گے یا اس کا انحصار وقت اور اس بات پر ہو گا کہ ایوان کے نمائندے کیا فیصلہ کرتے ہیں یعنی دوبارہ منتخب ہونے والے مائیک پنس صدر بنتے ہیں یا نئی منتخب ہونے والی کملا ہیرس۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلاشبہ دوسرے مسائل بھی موجود ہیں جیسا کہ سپریم کورٹ کا رویہ اور فیصلے، قوانین یا آئین کی تشریح کی بنیاد پر ریاستوں یا مرکز میں مزید قانونی مشکلات اور ریاست ایریزونا میں ’خصوصی انتخاب‘ (برطانوی اصطلاح میں ضمنی انتخاب) کی عجیب صورت اور حلف اٹھانے کی دوسرے سینیٹرز سے مختلف تاریخ کا امکان۔

آیا ان حالات میں کوئی بھی کھلاڑی  مجموعی عوامی ووٹ کو اہمیت دے گا اس کی آسانی سے پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ عوامی ووٹوں اور الیکٹرول کالج کے ووٹوں کے درمیان شاید 50 لاکھ ووٹوں کا فرق ہو سکتا ہے۔

کوئی بھی صورت ہو الزام تراشیاں سیاست کو کئی سال تک مزید زہرآلود کر دیں گی اور مضافات میں صبح کے پرسکون اوقات میں کافی پینے کے موقعے پر 2000 میں جارج بش دور کے گھمبیر حالات معمولی جھگڑا دکھائی دیں گے۔

اگرچہ اندازہ لگانے کا عمل قانونی اور سیاسی اعتبار سے واضح ہے۔ الیکٹورل کالج میں ٹرمپ۔ پنس یا بائیڈن۔ہیرس کے لیے جتنی زیادہ اکثریت ہو گی امریکی تاریخ میں صدارتی انتخاب کے سب سے زیادہ ابتری پر منتج ہونے کے امکانات اتنے کم ہوں گے۔

(امریکہ میں صدارتی انتخاب میں سب سے اہم اور پیچیدہ ادارہ الیکٹورل کالج ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو صدر کا انتخاب کرتا ہے۔ کالج کے ارکان جنہیں الیکٹر بھی کہا جاتا ہے شہریوں کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں۔ بعد میں یہی الیکٹرز صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ تین نومبر کو امریکی ریاستوں میں انہی الیکٹرز کو منتخب کیا جائے گا۔)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ