فرض کرو، اگر انڈیا نہ ہوتا

ہر انسان خواہشات کی ایک دنیا دل میں بسائے پھرتا ہے۔ کچھ کہنے اور کچھ کرنے کی خواہش، کچھ کھانے اور کچھ پینے کی خواہش۔ زندگی کے اس جھمیلے میں لے دے کے ہم دوچار خواہشیں ہی پوری کر پاتے ہیں۔

(اے ایف پی)

ہر انسان خواہشات کی ایک دنیا دل میں بسائے پھرتا ہے۔ کچھ کہنے اور کچھ کرنے کی خواہش، کچھ کھانے اور کچھ پینے کی خواہش۔ زندگی کے اس جھمیلے میں لے دے کے ہم دوچار خواہشیں ہی پوری کر پاتے ہیں۔ وہ بھی اس لیے کہ زمانے کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

سو میں سے پچانوے خواہشیں اس سوال کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ لوگوں کو احساس نہیں ہے مگر ہم پاکستانیوں کا معاملہ اس حوالے سے بہت سنگین ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے کسی شہری کے سامنے ’دنیا کیا کہے گی‘ والا سوال تو ہوتا ہی ہے، بونس کے طور پر ایک اور سوال بھی سامنے ہوتا ہے، انڈیا کیا کہے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی ملکی قومی پالیسیاں یا قومی بیانیہ تشکیل دیتے ہیں تو محض یہ نہیں دیکھتے کہ دنیا کیا کہے گی۔ ہمارے لیے ایک بڑا درد سر یہ بھی ہوتا ہے کہ انڈیا کیا سوچ رہا ہے، کیسے سوچ رہا ہے، کیا کر رہا ہے، کیا کہنے والا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔ لوگوں کو یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر وہ نہیں سوچتے کہ کینہ پروری سے مقابلے کی کیسی فضا جنم لیتی ہے۔

ہم بہت کمزور ملک ہیں، مگر آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے جو ہتھیار ہمارے پاس ہیں وہ دنیا کے بڑے بڑے مولا جٹوں کے پاس بھی نہیں ہیں۔ گنتی کے چھ سات ممالک ہیں جن کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، ہم ان میں سے ایک ہیں۔ کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہم مسلسل انڈیا کے ساتھ مقابلے میں ہیں۔

لوگ سوچے سمجھے بغیر کہہ دیتے ہیں کہ انڈیا سے اگر مقابلہ کرنا ہی تھا تو پھر تعلیم اور ہنر، سائنس اور ٹیکنالوجی، فن اور ادب، جمہوریت پسندی اور آئین مزاجی میں ہی مقابلہ کر لیتے۔ یہ بات کہنے والے نہیں جانتے کہ مقابلہ محض یہ تو نہیں ہوتا کہ آپ ہر چیز میں مدمقابل کو کاپی پیسٹ کرنا شروع کر دیں۔ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سی چیز آپ کے فائدے میں اور کون سی چیز آپ کے نقصان میں جا رہی ہے۔

کسی چیز کے ٹھیک اور غلط، سچ اور جھوٹ ہونے کے لیے دشمن ایک بڑا پیمانہ ہوتا ہے۔ جس چیز سے آپ کا دشمن خوش ہو، سمجھ جاؤ وہ آپ کے لیے غلط ہے۔ جس چیز سے وہ پریشان ہو، سمجھ جاؤ وہ آپ کے لیے ٹھیک ہے۔ دشمن کا سچ بھی اگر ہمارا سچ بن جائے تو پھر دشمنی کا مطلب ہی کیا ہوا۔ دشمنی ہی ختم کر دیں کیا؟

اگر لوگ بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے اس زاویے کو سمجھ لیں تو وہ جان پائیں گے کہ ہم صحت مند تعلیمی نظام کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ یہاں تعلیم کا حق دو تو لوگ تنقیدی مطالعے پر اتر آتے ہیں۔ تنقیدی مطالعے کا حق دو تو یہ جگہ جگہ علمی حلقے سجال یتے ہیں۔ حلقے سجانے دو تو یہ انسانی حقوق، علاقائی حقوق، اقلیتی حقوق، خواتین کے حقوق اور جانے کون کون سے حقوق کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے سوال اٹھانےلگ جاتے ہیں جسے اپنے چینلوں پر اچھال اچھال کر بھارتی صحافی خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، کیا ہمارے بزرگوں نے اتنی قربانیاں دے کر یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم انجامِ کار ہندو بنیے کو خوشیاں فراہم کرتے رہیں؟ یہی کچھ کرنا تھا تو پھر برتن الگ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

لوگ بہت سادہ الفاظ میں کہہ دیتے ہیں کہ تحریک لبیک، جیش اور جماعۃ الدعوہ یا اس جیسی دوسری فرقہ ورانہ تنظیمیں اور عسکری جماعتیں جو کچھ پڑھا رہی ہیں وہ دقیانوسیت ہے۔ یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر آپ اسے انڈیا کے تناظر میں دیکھیں تو آپ کو ہماری گہری منطق بھی سمجھ آ جائے گی۔ یہاں فرقہ ورانہ، عسکری اور دقیانوسی تنظیموں کا گھیراؤ کیا جائے تو موتی چور کے لڈو کس کے دل میں پھوٹتے ہیں؟ انڈیا کے۔ جب ان تنظیموں کو عزت دو تو جل بھن کر کس کا منہ کالا سیاہ ہوتا ہے؟ انڈیا کا۔ اب آپ بتائیں، دشمن کے منہ پر کالک ملنی چاہیے یا پھر رنگ گورا کرنے والی کریموں کی لیپا پوتی کرنی چاہیے؟

لوگ اگر سوچتے ہوئے اس تناظر کو مد نظر رکھیں تو انہیں پاپا جونز جیسی سٹوریوں والا معاملہ بھی سمجھ آ جائے گا۔ ممکن ہے یہ سٹوری کچھ نہ کچھ سچ ہو، مگر ضروری تو نہیں کہ یہ ٹھیک بھی ہو۔ اس کے غلط ہونے کے لیے کیا اتنا کافی نہیں ہے کہ اس سٹوری کی طرف پہلی بار ایک انڈین صحافی نے اشارہ کیا تھا؟ اگر آپ کو لگتا ہے کہ سی پیک کے چیئرمین کو احتساب سے استثنا دینا غلط بات ہے، تو ایک بار یہ بھی دیکھ لیں کہ انڈیا اس بارے میں کیا کہہ رہا ہے؟ اگر وہ بھی اس استثنا کو غلط ہی سمجھ ہے تو پھر آپ میں اور دشمن میں کیا فرق ہوا؟ اسی لیے تو ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف کی بات کرنے والے اور استثنا کے معاملے پر سوال اٹھانے والے دراصل قومی سلامتی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اچھا ایک بات بتائیں۔ استنبول کی گلیوں میں صافی قبیلے کا کوئی لال سرخ اور موٹا تگڑا جوان یہ کہتا ہوا نظر آئے کہ میں احسان اللہ احسان ہوں، ٹی ٹی پی کا سابق ترجمان ہوں، پاکستان میں زیر حراست رہا ہوں، وہاں سے فرار ہو کر یہاں آیا ہوں تو کیا آپ مان لیں گے؟ ظاہر ہے آپ تو مان لیں گے، کیونکہ آپ تو صرف یہ بات جانتے ہیں کہ وہ فرار ہوا ہے۔

یہ تو آپ جانتے ہی نہیں ہیں کہ اس فرار کی خبر پہلی بار انڈیا کے ایک صحافی نے بہت مزے لے لے کر پبلک کی تھی۔ اب اس خبر کو درست مان کر یا بار بار اس کا ذکر کر کے ہم کسی انڈین صحافی کے مزوں میں اضافہ کیوں کریں۔ کیوں، آخر کیوں؟

جمہوریت، عوامی راج، انتخابات اور آئین کی بالادستی جیسی باتیں بہت اچھی ہوتی ہوں گی، مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ جنرل مشرف نے جب سول حکومت کا دھڑن تختہ کیا تو انڈیا میں کیسا سوگ کا عالم تھا۔ جن دنوں وکلا تحریک چل رہی تھی انڈیا کے چینلوں پر مارے خاوشی کے کیسی ہاڑا ہوڑی مچی ہوئی تھی۔ جس دن جنرل مشرف ایوانِ صدر سے رخصت ہو رہے تھے اس دن انڈیا کے کچھ حلقوں میں خوشی کا کیسا سماں تھا۔ کیا یہ اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ صبح شام جمہوریت، ووٹ اور آئین کے راگ الاپنے سے ملکی سلامتی پر کیا گزرتی ہے؟ اپنے دشمن کو خوش کر کے اگر ہم ایک صحت مند معاشرہ بنا بھی لیں تو اس کا حاصل وصول کیا ہو گا۔

 دل کی سلامتی کے لیے ہمیں تعلیمی، معاشی، سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی ترقی نہیں چاہیے۔ جان کی سلامتی کے لیے ہمیں صحت، خوش حالی، ترقی اور روزگار بھی نہیں چاہیے۔ بس یادداشت کی سلامتی کے لیے یومیہ سات بادام اگر ہمیں مل جائیں تو بہت ہیں۔ تاکہ یہ بات ہمیں یاد رہے کہ انڈیا ہمارا ازلی ابدی اور اصلی نسلی دشمن ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ