سردیوں کے موسم کی ’خاص خوراک‘ شنے

شنے کے حوالے سے پشتو زبان میں ایک کہاوت بھی ہے جس کے مطابق: ’بے کار بیٹھنے سے بہتر ہے کہ شنے کھایا جائے۔‘

بلوچستان میں جہاں ہر قسم کے خشک میوے ملتے ہیں، وہاں ایک ایسی چیز بھی ہے جو صرف سردیوں میں استعمال کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسے کھانے کے بعد انسان کو سردی کم لگتی ہے۔

دارالحکومت کوئٹہ میں سردی بڑھنے کے ہی بازار میں ہر طرف ’شنے‘ فروخت کرنے والے نظر آتے ہیں اور گرمی شروع ہونے کے ساتھ ہی یہ میوہ بازار سے غائب ہوجاتا ہے۔

شنے یہاں کے لوگوں کی پسندیدہ خوراک ہے، جو بلوچستان کے علاقے ژوب، قلات اور افغانستان کے پہاڑوں میں موجود قدرتی درختوں سے لائی جاتی ہے۔

 کوئٹہ میں جناح روڈ پر کئی سالوں سے سردیوں کے موسم میں شنے فروخت کرنے والے عبدل محمد بھی اسے سردی میں جسم کو گرمانے کی اہم وجہ قراردیتے ہیں۔

عبدل محمد نے بتایا کہ یہ شنے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور سردی کے موسم میں بہت زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ 

عبدل کے مطابق: ’پاکستان میں شنے کے قدرتی درخت موجود ہیں لیکن اس کے دانے چھوٹے ہیں۔ بڑے دانوں والے شنے افغانستان سے لائے جاتے ہیں۔‘

شنے کو سرد علاقوں میں رہنے والے لوگ بطور سالن بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ اس کی تاثیر گرم ہونے کے باعث یہ انہیں سردی سے محفوظ رکھتا ہے۔

عبدل محمد نے بتایا کہ ’افغانستان سے آنے والا بڑے سائز کا شنے مہنگا ہوتا ہے جبکہ چھوٹے سائز کا سستا ہوتا ہے، تاہم یہاں کے لوگ بڑے سائز کے شنے پسند کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جہاں ایک طرف یہ لوگوں کا ذریعہ معاش ہے، وہیں اس کو کھانے والے اسے دیگر خشک میوہ جات بادام ،اخروٹ اور پستے کی طرح کا میوہ قرار دیتے ہیں۔

شنے کھانے کے شوقین بلوچستان کےعلاقے رود ملازئی سے تعلق رکھنے والے قسیم خان بھی سردیوں میں خود کو گرم رکھنے کے لیے شنے کا استعمال کرتے ہیں۔

قسیم خان نے بتایا کہ ’یہ سردیوں کے موسم کی خاص خوراک ہے۔ اس کو کھانے سے جسم کو قوت ملتی ہے۔ یہ میوہ بلوچستان میں بھی پایا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ شنے کے حوالے سے پشتو زبان میں ایک کہاوت بھی ہے جس کے مطابق: ’بے کار بیٹھنے سے بہتر ہے کہ شنے کھایا جائے۔‘

شنے کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے سردعلاقوں زیارت اور قلات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ میوہ 100 سے 200 روپے فی چھٹانک تک فروخت کیا جاتا ہے۔

فارسٹ کنزویٹر سید عمران علی نے انڈپینڈ نٹ اردو کو بتایا کہ شنے کے پودے کا تعلق پستے کے خاندان سے ہے۔ دنیا بھر میں اس کے خاندان کی دس اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سے چار پاکستان میں بھی اگتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شنے کا سائنسی نام Pistacia atlantica ہے۔ اس کے درخت کی اونچائی سات میٹرتک ہوتی ہے، اور یہ افغانستان، ایران کے جنوبی علاقوں کے علاوہ بلوچستان میں بھی پایا جاتا ہے۔ 

شنے کا چھلکا اور اس کا گودا دونوں کھائے جاتے ہیں۔ اس کا چھلکا تھوڑا ترش، جب کہ گودا میٹھا ہوتا ہے۔   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا