طالبان قیدیوں کی رہائی افغانستان میں جنگ بڑھنے کی بڑی وجہ؟

حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت طالبان قیدیوں کی رہائی سے زیادہ خوش نہیں تھی، لیکن امریکی دباؤ پر وہ پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔

افغان طلبہ بم دھماکے کے مقام پر اپنا سامان تلاش کر رہے ہیں (اے ایف پی)

 

افغانستان کے بیشتر غیرمحفوظ علاقوں میں جنگ برپا ہے۔ کیا ہلمند، قندھار، غزنی، ارزگان اور کیا قندوز سب میں اور متعدد دیگر صوبوں میں بھی لڑائی میں شدت دیکھنے میں آ رہی ہے۔

دوسری طرف طالبان نے شہروں میں حملوں سمیت افغان حکومت سے لڑنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنائی ہے۔ اگرچہ ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر کی طالبان سے براہ راست دشمنی نہیں ہے، لیکن ان کی ہلاکت سے افغان حکومت پر عوامی دباؤ بڑھ گیا ہے۔

قاتلانہ حملوں پر قابو پانے میں ناکامی پر حکومت تنقید کا نشانہ بنتی ہے اور یہی بات طالبان کے انٹیلیجنس حامیوں کو ایک ممکنہ ہدف کے طور پر نظر آتی ہے۔

دوسری طرف خودکش حملوں میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بارود سے بھری گاڑیوں کے استعمال کا، جس سے ہلاکتوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ اس مسئلے میں بھی ناکامی کی وجہ سے حکومت کو منفی عوامی رائے اور دوری بڑھنے کا سامنا ہے۔

افغانستان میں جنگ بڑھنے کی بنیادی وجہ سابق طالبان جنگی قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کا میدان جنگ میں واپس آنا ہے۔ امریکی حکومت اور طالبان کے مابین ایک سیاسی معاہدے کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ خیال ہے کہ ان لوگوں نے افغان حکومت کے خلاف جنگ تیز کر دی ہے۔

حال ہی میں افغانستان کے دوسرے نائب صدر سرور دانش نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان جیلوں سے رہا ہوئے طالبان کی اکثریت اپنے وعدوں کے باوجود میدان جنگ میں واپس آگئی ہے۔

سرور دانش نے مزید کہا کہ طالبان لچک کی کمی کی وجہ سے امن مذاکرات کے لیے اہم رکاوٹ بن چکے ہیں اور یہ بات اب تک طے نہیں ہو سکی ہے۔

اس سے قبل سپریم قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے کہا تھا کہ افغان حکومت کی جانب سے رہا کیے گئے کچھ طالبان میدان جنگ میں واپس آئے ہیں۔ عبداللہ کے مطابق میدان جنگ میں ان کی واپسی تحریک اور امریکی حکومت کے مابین امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب افغان حکومت کے عہدیداروں کے تبصروں پر طالبان نے ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کو بتایا کہ جنگ کے میدان میں طالبان کی واپسی ’حکومتی پروپیگنڈا‘ ہے اور یہ کہ طالبان قیادت نے انہیں اپنے خاندانوں کے ساتھ رہنے اور تربیت یا علاج معالجے کی ہدایت کی تھی۔

لیکن یہ کوئی راز نہیں ہے کہ وہ جنگ میں واپس آ گئے ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں مارے جانے والے یا حراست میں لیے جانے والے کچھ طالبان اراکین کی شناخت افغان حکومت کے پاس موجود تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کابل یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے میں ایسے افراد استعمال کیے گئے جو افغان حکومت کی جیلوں سے رہا ہونے والوں میں سے تھے۔ البتہ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے ایک علاقائی گروہ نے قبول کی تھی۔

افغان حکومت کے خلاف جنگ میں طالبان کے دوبارہ متحرک ہونے کے عوامی سطح پر اہم مضمرات ہوسکتے ہیں۔ یقیناً اس کا اثر افغان حکومت پر پڑا ہے۔ ایک بار پھر عوام حکومت سے نالاں ہو جائے گی جبکہ متعدد شخصیات نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت طالبان قیدیوں کی رہائی سے زیادہ خوش نہیں تھی، لیکن آخر کار امریکی دباؤ کا اثر ہوا اور افغان حکومت پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔

دوسری طرف یہ پتہ چلا ہے کہ قید طالبان کی میدان جنگ میں موجودگی امریکہ کے لیے بھی مسئلہ بن سکتی ہے جو امریکہ کے پاس طالبان کے خلاف اپنے فضائی حملوں میں اضافے کا جواز بن سکتا ہے۔ اس سے امن مذاکرات پر بھی نمایاں اثر پڑسکتا ہے۔ مذاکرات کے عمل میں طالبان زیادہ لچک دار ہونے پر مجبور ہوں گے۔ کیونکہ وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ امن معاہدے کی تمام شقوں پر عمل پیرا ہیں، لیکن قیدی طالبان کی جنگ میں واپسی امن معاہدے کی خلاف ورزی کی ہی ایک شکل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا