گلگت بلتستان الیکشن کون جیتے گا؟

وسیع و عریض رقبے پر پھیلا، قدرتی حسن اور وسائل سے مالا مال گلگت بلتستان اپنی موجودہ قانون ساز اسمبلی کے تیسرے انتخابات اتوار 15 نومبر کو دیکھنے جا رہا ہے۔

گلگت بلتستان کی 24 سیٹوں پر جماعتی بنیادوں پر براہ راست الیکشن ہونے جا رہا ہے (سوشل میڈیا)

وسیع و عریض رقبے پر پھیلا، قدرتی حسن اور وسائل سے مالا مال گلگت بلتستان اپنی موجودہ قانون ساز اسمبلی کے تیسرے انتخابات اتوار 15 نومبر کو دیکھنے جا رہا ہے۔

تیسری پنج سالہ ٹرم کے یہ الیکشن کئی حوالوں سے انتہائی اہم ہیں جن کا ذکر کالم میں آگے چل کر کیا جائے گا۔ اٹھائیں ہزار سکوائر میل یا بہتر ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا یہ خوبصورت علاقہ صرف 18 لاکھ کی قلیل آبادی رکھتا ہے (یعنی راولپنڈی سے صرف ایک دو لاکھ کم) جس کی 24 سیٹوں پر جماعتی بنیادوں پر براہ راست الیکشن ہونے جا رہا ہے۔

23 سیٹوں پر الیکشن اتوار 15 نومبر کو ہوگا جبکہ ایک سیٹ گلگت حلقہ تین پی ٹی آئی کے سید جعفر شاہ کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی (جو کرونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے)۔ اس ایک سیٹ پر انتخاب 22 نومبر کو ہوگا۔

سید جعفر شاہ نہ صرف پی ٹی آئی گلگت بلتستان کے صدر تھے بلکہ جماعت کی طرف سے وزیراعلیٰ کی سیٹ کے لیے مضبوط امیدوار بھی تھے۔ سید جعفر شاہ نے 80 کی دہائی میں پیپلز پارٹی جوائن کی تھی اور 2005 سے 2012 تک پیپلز پارٹی کے علاقہ صدر بھی رہے تھے۔

 سید جعفر شاہ کے انتقال سے گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی انتخابی پوزیشن متاثر تو ضرور ہوئی لیکن اس کے باوجود تاحال جماعت اچھی خاصی مضبوط الیکٹورل گراؤنڈ رکھے ہوئے ہے۔

گلگت بلتستان کی کن کن سیٹوں پر کون کامیاب ہو سکتا ہے اور کس کے حکومت بنانے کے چانسز زیادہ ہیں اس پر تجزیہ کرنے سے پہلے ذرا گلگت بلتستان کے تاریخی سیاسی حوالے بھی مدنظر رکھ لیے جائیں۔

تاریخی حوالوں سے گلگت بلتستان کے لوگ نظریاتی اور عمومی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف جھکاؤ اور لگاؤ رکھتے ہیں اور اس کی کئی ٹھوس وجوہات رہی ہیں۔

 1948 میں آزادی کے بعد کسی سیاسی رہنما نے اگر گلگت بلتستان کی حیثیت اور اہمیت کو عملی اقدامات کے ساتھ تسلیم کیا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے 1970 میں شمالی علاقہ جات کونسل بنائی اور جس کے بعد گلگت بلتستان براہ راست وفاقی حکومت کے ماتحت انتظام میں آگیا۔

یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگ آج بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ آزادی قائداعظم کے ساتھ ملی اور حیثیت قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ۔۔

بعد میں بینظیر بھٹو نے گلگت بلتستان میں پہلی بار جماعتی بنیادوں پر انتخابات کی داغ بیل ڈالی جس سے علاقے میں سیاسی شعور اور خود مختاری میں اضافہ ہوا۔

بارہ پندرہ سال بعد آصف زرداری کے انقلابی اقدامات نے گلگت بلتستان کی صورتِ حال ہی بدل کر رکھ دی۔

گلگت بلتستان کو اس کا نام اور پہچان دی گئی۔ کونسل کو سینیٹ کی حیثیت دے کر گلگت بلتستان اسمبلی وجود میں لائی گئی۔ علاقے کا گورنر مقرر کیا گیا، Self Empowerment Order متعارف کروایا گیا جس کے تحت مقامی افسران کی شرح کا بھی تعین ہوا اور اس کی وجہ سے مقامی لوگوں کے لیے ترقی اور خوشحالی کا نیا آغاز ہوا۔

دیگر بھی کئی اہم اصلاحات آصف زرداری نے علاقے میں متعارف کروائیں جن کا تذکرہ کرنے بیٹھیں تو کالم اپنے اصل عنوان سے پرے چلا جائے گا۔

بہرحال یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جن کی بنیاد پر گلگت بلتستان کے عوام کا لگاؤ اور جھکاؤ فطری طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ رہا ہے، پہلے انتخابی دور میں پیپلز پارٹی علاقے کی وزارتِ اعلیٰ سنبھالے رہی۔ دوسرے انتخابی دور میں مسلم لیگ (ن) کے پلڑے میں یہاں کی وزارتِ اعلیٰ آئی۔

گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) نے کافی اچھا کام کیا اور کئی ترقیاتی منصوبے اس علاقے کو دیے جن میں سے ایک گلگت سکردو روڈ ہے (جسے جبلوٹ سکردو شاہراہ بھی کہتے ہیں)۔ یہ سڑک گلگت بلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھی جسے نواز شریف نے پورا کیا۔

اس کے علاوہ سکردو کے قریب گاؤں حسین آباد میں بلتستان یونیورسٹی کا قیام بھی مسلم لیگ (ن) کا کریڈٹ ہے۔ یونیورسٹی اگرچہ ابھی زیر تعمیر ہے مگر اس کا کیمپس تین سال سے کام کر رہا ہے جو علاقے کے نوجوانوں کے لیے تعلیم کا بڑا ذریعہ ہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم نواز شریف نے علاقے میں دو نئے ضلع (شِگر اور کھرمنگ) قائم کیے جو علاقے کے عوام کا اہم مطالبہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے۔

اب تیسری ٹرم کے لیے پی ٹی آئی یہاں حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔

زمینی حقائق تو یہی بتاتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں اُسی جماعت کی حکومت آتی ہے جو وفاق میں حاکم ہو کیونکہ فنڈز ترقیاتی منصوبے اور دیگر فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے آسانی رہتی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ پی پی اور ن لیگ کے بعد کیا گلگت بلتستان کے عوام پی ٹی آئی کو وزارتِ اعلیٰ دیتے ہیں یا نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اتوار 15 نومبر کا الیکشن انتہائی اہم اور دلچسپ صورتحال اختیار کر چکا ہے۔

گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 13 سیٹیں درکار ہوں گی۔ اگر پی ٹی آئی نو سیٹیں بھی حاصل کر لیتی ہے تو مجلسِ وحدت مسلمین یا علامہ ساجد نقوی کی اسلامی تحریک (جوکہ کالعدم تحریکِ جعفریہ کا نیا نام ہے اور نئے نام سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے) یا آزاد امیدواروں کے ساتھ الحاق کرکے با آسانی حکومت بنا سکتی ہے، لیکن دوسری جانب پیپلزپارٹی ہے جس کے پاس کم از کم 12 سیٹوں پر تگڑے امیدوارموجود ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہار جیت کے مارجن کے ساتھ پیپلز پارٹی اگر پانچ سے چھ سیٹیں بھی حاصل کر لیتی ہے، مسلم لیگ (ن) کی ایک سے دو سیٹیں، جے یو آئی (ف) کی چِلاس اور دیام سے دو سیٹیں اور آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر پیپلزپارٹی بھی گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کے اچھے چانسز رکھتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے جس طرح گلگت بلتستان میں طوفانی الیکشن مہم چلائی ہے اور دور دراز دشوار گزار علاقوں میں جا کر عوام سے براہ راست رابطہ کیا ہے اس نے رائے عامہ کو اچھے پیمانے پر پی پی کے حق میں کیا ہے۔

گلگت بلتستان میں الیکشن ہنگامہ برپا کرنے کا کریڈٹ بھی بلاول بھٹو زرداری کا ہے جنہوں نے 21 اکتوبر سے بھرپور انتخابی مہم سے عوام کو جگا دیا وگرنہ اس سے پہلے الیکشن کے حوالے سے علاقے میں سناٹا تھا۔

بلاول بھٹو زرداری کی الیکشن کیمپین دیکھ کر ہی پی ٹی آئی نے بھی میدان مارنے کی ٹھان لی اور وفاقی وزیر، مشیر جوق در جوق گلگت بلتستان پہنچے یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان خود بھی اور گلگت بلتستان کے عوام کے لیے وعدوں کی بوچھاڑ اور پیسوں کی برسات کر دی گئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خود وزیراعظم عمران خان کی آمد اور حکومتی وزیروں مشیروں کی گلگت بلتستان میں الیکشن مہم چلانے نے لوگوں کو بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کی طرف مائل کیا ہے اور صورتحال اب پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے درمیان ففٹی ففٹی اور کانٹے کی ہوگئی ہے۔

پیپلزپارٹی سمیت تمام اپوزیشن پہلے سے ہی دھاندلی کے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی پرامید ہے کہ اس بار گلگت بلتستان میں حکومت وہی بنائے گی۔

کالم چونکہ طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے سو اگلے کالم میں تحریر کروں گی کہ گلگت بلتستان کے عوام کے اصل مسائل کیا ہیں اور الیکشن میں کامیاب ہونے والی جماعت کو کن عوامی ایشوز پر فوری توجہ دینی ہوگی خاص طور پر 18 لاکھ کی آبادی کا 70 فیصد نوجوان حصہ اور اس کے لیے روزگار کا بندوبست، سی پیک کا گیٹ وے اور انٹری پوائنٹ گلگت بلتستان جو تاحال اس منصوبے کے ثمرات سے ہی محروم ہے، سی پیک کی جے سی سی میں نمائندگی کا مسئلہ، اکنامک زون کی سست روی، راہداری مارکیٹ کیسے قائم کی جا سکتی ہے اور اس کے ذریعے گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت کو معاشی فائدے میں کیسے بدلا جا سکتا ہے، علاقے کی سیاحت کے فروغ کا مسئلہ، معدنیات سے مالا مال علاقہ لیکن پاکستان فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہا... اور دیگر کئی اہم معاملات جن پر انشا اللہ آئندہ کالم میں گفتگو رہے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ