ہندو لڑکے سے شادی سے انکار پر ’زندہ جلائی‘ گئی لڑکی دم توڑ گئی

ضلع ویشالی کے رسول پور حبیب کی رہائشی گلناز خاتون کے اہل خانہ کے مطابق ستیش کمار رائے نامی ایک مقامی نوجوان ان کی جواں سال بیٹی کو شادی کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاست بہار کے ضلع ویشالی میں مبینہ طور پر تین ہندو نوجوانوں کے ہاتھوں زیادتی کے بعد زندہ جلائی جانے والی 20 سالہ گلناز خاتون پٹنہ میڈیکل کالج و ہسپتال میں 17 روز تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اتوار کی شام دم توڑ گئی ہیں۔

ضلع ویشالی کے رسول پور حبیب کی رہنے والی گلناز خاتون کے اہل خانہ کے مطابق ستیش کمار رائے نامی ایک مقامی نوجوان ان کی جواں سال لڑکی کو شادی کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔

جب گلناز نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’ایک مسلم لڑکی ایک ہندو سے شادی نہیں کر سکتی‘ تو ستیش کمار نے مبینہ طور پر 29 اکتوبر کی شام کو اپنے ’دو دوستوں کے ہمراہ اس 20 سالہ لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کے بعد اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا۔‘

اتوار کی شام جب گلناز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں تو ان کے اہل خانہ اور دیگر عزیز و اقارب نے اگلی صبح لاش کے ساتھ پٹنہ کے کرگل چوک میں احتجاجی دھرنا دیا اور پولیس پر ملوث افراد کو گرفتار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لینے کا الزام لگایا۔ بعد ازاں اس احتجاجی دھرنے میں طلبا اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان نے بھی شرکت کی۔

یہ احتجاجی دھرنا اس وقت دیا جا رہا تھا جب ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے حمایت یافتہ نتیش کمار بہار کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لے رہے تھے۔

گلناز کو جلائے جانے کے زائد از دو ہفتے بعد یہ واقعہ سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بن گیا ہے لیکن اس کو اجاگر کرنے میں بھارتی میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز اور معروف اخبارات کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آ رہی ہے۔

مبصرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ ’گلناز کے ساتھ بربریت‘ ان کے لیے ’لو جہاد‘ کا معاملہ نہیں ہے۔

جہاں گلناز ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں وہیں ملزمان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ با اثر اور امیر گھرانوں سے ہیں اور گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو چکے ہیں۔

گلناز کے والد مختار احمد چند سال قبل انتقال کر چکے ہیں۔ گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے گلناز اور ان کی والدہ سلائی کڑھائی کا کام کرتے تھے۔

ان کی والدہ میمونہ خاتون نے احتجاجی دھرنے کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ 29 اکتوبر کی بات ہے۔ ستیش کمار رائے نے میری لڑکی کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ میری لڑکی نے اس سے کہا کہ میں تمہارے ساتھ کیوں چلوں۔ ہم مسلمان ہیں اور تم ہندو ہو۔ ہم تمہارے ساتھ کیسے شادی کرسکتے ہیں۔ ہمارا رشتہ طے ہو چکا ہے۔‘

’ستیش کمار نے گلناز کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ صرف ایک دن بعد یعنی 30 اکتوبر کو ستیش اور اس کے دوستوں نے میری لڑکی کے ساتھ سڑک پر چھیڑ چھاڑ کی۔ جب اس نے مزاحمت دکھائی تو ان لوگوں نے اس پر تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا۔ وہ آج 17 دن بعد انتقال کر گئیں۔‘

میمونہ کے مطابق ان کی بیٹی سلائی کڑھائی کا کام کرتی تھی اور چار ماہ بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمیں انصاف چاہیے۔ 17 دن گزر گئے لیکن انصاف نہیں مل رہا ہے۔ مقدمہ درج کیا گیا ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ کوئی سنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ ہم مجبور ہیں، ہمارے ساتھ کوئی نہیں ہے، ہم سلائی کا کام کر کے بچوں کو پال رہے ہیں۔‘

احتجاجی دھرنے میں شریک ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ’رسول پور حبیب میں ایک نئی سڑک بنائی گئی تھی۔ ستیش کمار رائے اور اس کا دوست چندن کمار رائے اس سڑک پر ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔‘

’جب گلناز نے ان لڑکوں کو روکنے کی کوشش کی تو وہ بولے ہم نے سڑک خریدی ہے۔ چھیڑ خوانی اگر ہوگی تو یہیں پر ہوگی۔ جب لڑکی نے مزاحمت دکھائی تو ان لڑکوں نے اس کو زندہ جلا دیا۔‘

ہسپتال میں علاج کے دوران گلناز نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی چند کارکنوں کے سامنے ایک ویڈیو بیان دیا ہے جس میں وہ ستیش کمار رائے کا نام لے رہی ہیں۔

انہیں ویڈیو بیان میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے: ’میرا نام گلناز خاتون ہے۔ میں شام کے قریب چھ بجے کچرا پھینکنے کے لیے جا رہی تھی تو ستیش کمار نامی لڑکے نے مجھ پر تیل چھڑک کر مجھے آگ لگا دی۔‘

ایک رپورٹ کے مطابق گلناز نے پولیس کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے اپنے ایک بیان میں ملزمان کی شناخت ستیش کمار رائے، چندن رائے اور ونود رائے کے طور پر کی ہے جو آپس میں رشتہ دار ہیں۔

پٹنہ ہائی کورٹ کے وکیل اور سماجی کارکن کاشف یونس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ متعلقہ تھانے نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور چونکہ تین تاریخ کو اسمبلی انتخابات کی ووٹنگ تھی اس وجہ سے بھی یہ معاملہ دب کر رہ گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کاشف یونس کے مطابق ملزمان کا تعلق ایک با اثر خاندان سے ہے اس وجہ سے کوئی بھی سیاسی رہنما متاثرہ خاندان کے گھر پر نہیں آیا۔ ’میں نے متعلقہ پولیس افسر سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ کیا کسی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ میں نے ضلع پولیس افسر سے پوسٹ مارٹم رپورٹ مانگی تو ان کا جواب تھا کہ ابھی نہیں آئی ہے۔ اگر ہمیں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کوئی کمی نظر آئی تو ہم پھر سے پوسٹ مارٹم کرانے کی مانگ کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملزمان کے خاندانوں سے کچھ لوگ متاثرین کو دھمکا رہے ہیں۔ میں نے ان کی گرفتاری کی مانگ کی ہے۔ نیز اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لینے والے پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔‘

ویشالی کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس شری منیش نے بھارتی نیوز ویب سائٹ 'نیوز کلک' کو بتایا ہے کہ معاملے کی تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

شری منیش کے مطابق ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

’گاؤں میں تناؤ اور سکیورٹی تھرٹ کے پیش نظر متاثرہ خاندان کو پولیس پروٹکشن فراہم کی گئی ہے۔ چونکہ ملزمان کا تعلق بااثر اور طاقتور خاندانوں سے ہے اس کو دیکھتے ہوئے گاؤں میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا