عوام تک شبر زیدی کا پیغام پہنچ چکا ہے

میں جب زمین سے کان لگاتا ہوں تو مجھے قدموں کی بڑھتی ہوئی دھمک سنائی دیتی ہے جو ہر لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔

(ویڈیو گریب)

شبر زیدی نے ہماری اسی بات کی تصدیق کی ہے کہ ہمارے ملک کی حالیہ جمہوریت عوامی مفاد میں نہیں بلکہ اشرافیہ کے مفاد میں کام کرتی ہے۔

آپ کو کئی سال سے بتا رہا ہوں کہ قانون سازی اور ایمنسٹی سکیمیں اس طرح تیار کی جاتی ہیں کہ کچھ خاص طبقات کو فائدہ پہنچے جبکہ پوری قوم غربت اور قرضوں میں ڈوبی رہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کریں

 

 

شبر زیدی یہی تو کہہ رہے ہیں کہ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے سودے مارکیٹ ریٹ پر ہونے چاہییں اور اسی شرح سے ریاست ان سے ٹیکس لے۔ وہ دکانوں میں بھی کیش رجسٹر رکھوانا چاہتے ہیں اور ہر مہنگی گاڑی اور کہتے ہیں کہ سامان کی خریداری پر آئی ڈی کارڈ کا ریکارڈ بھی ہونا چاہیے۔

شبر سیاست دان نہیں ہیں اس لیے حکومت اور آرمی چیف کو ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔ مگر دبے لفظوں میں انہوں نے وزیراعظم اور آرمی چیف پر یہ الزام لگا دیا کہ امیر لوگوں سے ٹیکس کی وصولی پر انہیں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی۔

ہمارا خیال ہے کہ فوجی جرنیلوں کو کاروبار اور معاشی معاملات سے دور رہنا چاہیے۔ جب آرمی چیف امیر لوگوں سے ملے اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر  جنرل آصف غفور نے تصویریں جاری کیں تو ہم نے اس پر اعتراض کیا تھا کہ آرمی چیف کو ایسی ملاقاتیں نہیں کرنی چاہییں، اس لیے کہ یہ کار سرکار میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔

وہی ہوا کہ میٹنگ کے بعد شبر زیدی کی صحت جواب دے گئی اور ان کی ٹیکس اکٹھا کرنے کی خواہش دم توڑ گئی۔ مگر صرف یہی وجہ نہیں تھی۔ عمران خان بھی پیچھے ہٹ گئے اور جب امیر لوگوں نے ٹیکس والوں کی کارروائی پر شور مچایا تو وہ شبر زیدی کی مدد کو نہ آئے۔

اب ان کے نئے مشیر ڈاکٹر وقار مسعود صاحب پیار سے ٹیکس لینا چاہتے ہیں اور نہ دینے والوں سے آج کل التجا کر رہے ہیں۔ وقار صاحب کہنہ مشق بیوروکریٹ ہیں آدمی کو ایک منٹ میں پہچان لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے عمران خان کبھی اپنے امیر دوستوں سے ٹیکس وصولی میں ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اسی لیے نوکری بچانے میں ہی ان کا فائدہ ہے۔

دوسری طرف پی ڈی ایم ہے جو ہر معاملے میں حکومت پر تنقید کرتی ہے مگر شبر زیدی کے معاملے میں انہوں نے چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کے زیادہ تر رہنماؤں کے امیر لوگوں سے گہرے تعلقات ہیں اور حکومت پر ایسی تنقید کا کیا فائدہ جس سے دوست ناراض ہو جائیں۔ سیاست اپنی جگہ مگر منافع میں کمی نہیں آنی چاہیے۔

پی ٹی آئی، پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ تینوں موجودہ نظام کو ہی قائم رکھنا چاہتے ہیں، جھگڑا صرف حصہ داری کا ہے۔ یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ کس کا حصہ کتنا ہو گا۔ گرینڈ ڈائیلاگ جس کی یہ بات کر رہے ہیں اس میں گرینڈ صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی لیے ڈالا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں صرف ڈائیلاگ اس بات پر ہوگا کہ اگلے مرحلے میں حصہ بخرے کس طرح ہوں گے۔ پی ڈی ایم کے میثاق پاکستان کو دیکھیں اس میں عوام کے لیے کیا ہے؟ اسی لیے میں اسے پیار سے میثاق اقتدار کہتا ہوں۔ اس مقابلے میں ہم نے میثاق عوام میں تمام سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

حل صرف ہمارے قومی سیاسی مذاکرات میں ہے جس کی طرف ہم نے کافی پیش قدمی کی ہے۔ حکومتی اتحادی پارٹیوں سے میں نے رابطہ کیا ہے کہ وہ بھی اپنا میثاق عوام کے سامنے پیش کریں۔ پی ٹی آئی کو میز پر لانے کا کام اسٹیبلشمنٹ کو کرنا پڑے گا اس لیے کہ یہ انہی کی تخلیق ہے۔ اس کے بعد گرینڈ ڈائیلاگ نہیں بلکہ قومی سیاسی مذاکرات ہوں گے اور ایک نئے عمرانی معاہدے کی طرف پیش رفت ہو گی۔

میرے تمام بیانات حکومتی اور پی ڈی ایم کی پارٹیوں کے رہنما بڑے غور سے پڑھتے ہیں مگر وہ ہمیں مذاکرات کی میز پر نہیں دیکھنا چاہتے اس لیے کہ وہ نظام کی تبدیلی کی بجائے آپس میں گرینڈ بار گین کرنا چاہتے ہیں۔

ہمارے پاس نہ کوئی بندوق ہے اور نہ کوئی ایسا مواد ہے جس سے انہیں بلیک میل کریں۔ مگر میں پی ٹی آئی، پی ڈیم ایم اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ پرانے زمانے میں جب فوجیں نکلتی تھیں تو افسران زمین سے کان لگا کر سنتے تھے کہ دشمن قریب ہے یا دور۔

میں جب زمین سے کان لگاتا ہوں تو مجھے قدموں کی بڑھتی ہوئی دھمک سنائی دیتی ہے جو ہر لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور عوام خونی انقلاب کے لیے نکل کھڑے ہوں، اس حالیہ جمہوریت کی جگہ عوامی جمہوریہ کے لیے مذاکرات شروع کریں۔ حکمرانوں کا نہیں پتہ مگر عوام تک شبر زیدی کا پیغام پہنچ چکا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر