’اپنے دریا قربان کر کے بوند بوند کو ترس رہے ہیں‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایک گاؤں کے نیچے سے گزرتی نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی سرنگ کے باعث چشمے سوکھنے لگے تو پانی کی کمی کی وجہ سے کئی گھرانے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سبیلہ بی بی جب شادی کر کے کیالہ نڑاں شریف گاؤں آئیں تو گھر میں خوشحالی تھی۔ گھر میں مال مویشی تھے اور ساتھ کے باغات میں سبزیاں اگا کر خاندان کی ضروریات پوری رہی تھیں۔

دو سال قبل اچانک سے چشموں کا پانی کم ہونا شروع ہو گیا۔ سب لوگ پریشان ہوئے کہ ایسا آج تک نہیں ہوا کہ چشموں کا پانی کم ہوا ہو ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

ایک دن تو سبیلہ بی بی بالکل دنگ رہ گئی جب وہ چشمے پہ پانی بھرنے گئیں تو ابھی پانی بھرنے لگی تھیں کہ چشمے کا پانی ختم ہو گیا اور ان کو خالی برتن لے کر گھر واپس آنا پڑا۔

وہ بتاتی ہیں: ’میں شدید خوف میں تھی کہ یہ معجزہ کیسے ہو گیا کہ اچانک سے چشمے کا پانی زمین کے اندر چلا گیا۔‘

اسی گاؤں کے رہائشی اور سماجی کارکن گل خطاب نے بتایا کہ ان کے ایک دوست انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) میں ملازم تھے۔ جب ان سے چشموں کے پانی کے کم ہونے کے حوالے سے بات کی گئی تو معلوم ہوا کہ گاؤں کے نیچے سے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی ایک سرنگ گزر رہی ہے اور اسی وجہ سے چشمے خشک ہو رہے ہیں۔

 گل خطاب کے مطابق گاؤں والوں کا اس بات کا علم ہی نہیں تھا۔ ’جب ہمیں پتہ چلا تو ہم نے ہڑتالیں بھی کیں، دریا بچاؤ کمیٹی کے لوگوں سے بھی ملے۔ ان لوگوں نے بھی ہماری آواز بلند کی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمیں تو انسان ہی نہیں سمجھا جا رہا جبکہ ریاستوں میں تو جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔‘

’گھر چھوڑنا پڑا‘

سبیلہ بتاتی ہیں کہ پانی خشک ہونے کے باعث ان سمیت دس سے زائد خاندانوں کو مظفرآباد منتقل ہونا پڑا۔ ’ہم لوگ مال مویشی بیچ کر گھروں کو تالے لگا کر یہاں کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں۔ جبکہ گاؤں میں آٹھ کمروں کا مکان بند پڑا ہوا ہے۔‘

سبیلہ بی بی کہتی ہیں کہ جن کے پاس پیسے ہیں وہ تو وہاں سے نقل مکانی کر رہے ہیں لیکن غریب لوگ شدید مشکلات میں ہیں۔ وہ پانچ کلومیٹر دور سے پانی لاتے ہیں یا موٹر سائیکل یا گاڑی پہ پانی منگواتے ہیں تو ایک گیلن ان کو 500 روپیے  میں ملتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: ’اب گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی بچوں کو لے کر گاؤں نہیں جا سکتے۔ وہاں پینے کے لیے پانی نہیں ہے وہاں جا کر کیا کریں گے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سبیلہ بی بی اپنے گاؤں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ’اگر حکومت ہمارے پانی کے مسلے کو حل کر دیتی ہے تو ہم اپنے بچوں کو لے کر واپس اپنے گاؤں چلے جائیں گے کیونکہ یہاں گرمی زیادہ پڑتی ہے اور بچے بہت تنگ ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے شکوہ کیا: ’ہم نے اپنی زمینیں اپنے دریا قربان کر کے پاکستان کو روشن کیا اب بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں ہمیں پانی دیا جائے۔‘

ایک اور پراجیکٹ

سائنسی نقطہ نظر سے دریاوں کے قدرتی بہاؤ کے راستے کی تبدیلی کی وجہ سے آس پاس کے علاقے کا ماحولیاتی توازن بگڑ جاتا ہے اور ’ڈرائی پیرئیڈ‘خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں بارشیں کم ہونے سے پہاڑی علاقوں میں موجود پانی کے قدرتی وسائل یعنی چشموں کا پانی یا تو ختم ہو جاتا ہے یا نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے اثرات سے ابھی لوگ نبرد آزما تھے کہ اب کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پہ کام شروع ہو گیا ہے جس سے چشموں کے سوکھنے سے خدشے سے لوگ پریشان ہیں۔

علاقے میں پانی کی کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ای پی اے کے ڈائریکٹر جنر  عدنان خورشید کا کہنا تھا نیلم جہلم پراجیکٹ کی سرنگ سے متاثرہ تمام دیہات میں دو سو سے زائد واٹر سپلائی سکیم لگا کر دی گئی ہیں تا کہ لوگوں کو پینے کا پانی مہیا ہو سکے۔ ’ہمیں بھی یہ شکایات موصول ہوئی ہیں اور ہم اس پر سروے کروا رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ عام فہم بات ہے کہ جب سرنگ کسی بھی علاقے سے گزرے گی تو اس علاقے میں قدرتی چشموں کا پانی زمین کے اندر چلا جائے گا اور یہاں پر بھی یہی ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ای پی اے نے 2016 اور 2017 میں واپڈا کو خط لکھے تھے کہ جن علاقوں کے نیچے سے سرنگیں گزر رہی ہیں ان علاقوں میں چشمے خشک ہو رہے ہیں ہماری خط و کتابت پر ہی دو سو سے زائد واٹر سپلائی سکیم لگی ہیں۔

جب ان سے پوچھا کہ بہت سے علاقوں میں نہ پانی ہے اور نہ ہی واٹر سپلائی سکیم تو ان کا جواب تھا کہ اس حوالے سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ فنڈ حکومت کو ملے ہیں یہ وہی بتا سکتی ہے۔

کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی سرنگ کے حوالے سے جب پوچھا گیا کہ آیا نیلم جہلم سرنگ سے پیدا ہونے والے مسائل کو مدنظر رکھا گیا ہے یا وہاں بھی یہی صورت حال ہو گی تو ان کا کہنا تھا: ’ہم نے پہلے سے وہ علاقے مارک کر لیے ہیں جن کے نیچے سے سرنگ گزرے گی تا کہ ان علاقوں کی عوام کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات