کراچی میں گاڑیوں سے مضر گیسوں کے اخراج کی نگرانی

سرکاری اہلکار سڑک پر چیکنگ کے بعد فٹ گاڑیوں پر ہرا سٹیکر لگاتے ہیں جبکہ ان فٹ گاڑیوں پر لال سٹیکر کے علاوہ مالکان پر جرمانہ عائد کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سندھ حکومت کی مناسب پبلک ٹرانسپورٹ متعارف کرانے میں ناکامی کی وجہ سے شہریوں کی اکثریت نجی پرانی اور خستہ حال بسوں میں سفر کرتی ہے، جس سے ایک طرف شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری طرف یہ پرانی بسیں شہر میں فضائی آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔  

ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست ہے جب کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی دوسرے اور کرغزستان کا شہر بشکیک تیسرے نمبر پر ہے۔ انڈیکس کے مطابق فضا میں آلودہ ذرات کی مقدار 151 سے 200 پرٹیکیولیٹ میٹرز تک مضر صحت ہے، جب کہ منگل کو کراچی میں کی فضا میں 301 پرٹیکیولیٹ میٹرز آلودہ ذرات ریکارڈ کیے گئے جو خطرناک حد تک فضائی آلودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ 

ادارہ برائے تحفظ ماحولیات سندھ (سیپا) نے حال ہی میں کراچی سمیت صوبے کے دیگر بڑے شہروں میں گاڑیوں سے نکلنے والی گیسوں کے اخراج کی نگرانی شروع کی ہے۔ سیپا کا ذیلی ادارہ وہیکیلولر امیشن کنٹرول پروگرام گیسوں کی نگرانی کرنے والے جدید آلات پر مبنی موبائل یونٹس سے مختلف علاقوں میں چھوٹی بڑی گاڑیوں کو روک کر چیک کرتا ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر وہیکیلولر امیشن کنٹرول پروگرام انجینیئر سدا بخش درس کے مطابق کراچی میں بڑی تعداد میں چلنے والی صعنتوں کے ساتھ روڈ ٹرانسپورٹ فضائی آلودگی کا دوسرا بڑا سبب ہے۔  

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ روزانہ کراچی کے مختلف مقامات پر ٹریفک پولیس کی مدد سے گاڑیوں سے گیسوں کے اخراج اور ان سے نکلنے والی صوتی آلودگی کو چیک کرتے ہیں، کراچی میں 25 سے 35 فیصد تک گاڑیاں ماحولیاتی لحاظ سے ان فٹ ہیں کیونکہ ان میں سے خارج ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت ماحول دشمن گیسوں کی مقدار معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 

ان کے مطابق کراچی میں ٹو سٹروک رکشہ، جس پر حکومت نے 10 سال پہلے پابندی عائد کی تھی لیکن وہ تاحال شہر میں بڑی تعداد میں موجود ہیں، کے علاوہ بڑے ٹرک اور لوڈنگ گاڑیاں سب سے زیادہ ماحول دشمن گیسوں کا اخراج کرتی ہیں۔

کراچی میں وفاقی حکومت کا چھ سال قبل اعلان کردہ گرین لائن بس منصوبہ تاحال شروع نہ ہوسکا۔ حالیہ دنوں میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور کراچی میں وفاقی حکومت کی بڑے منصوبوں کی نگرانی کے لیے بنائی گئی کراچی کمیٹی کے رکن اسد عمر نے کہا ہے کہ گرین لائن بس منصوبہ جون 2021 تک شروع ہوسکتا ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح سپریم کورٹ کے حکم پر پاکستان ریلویز نے کراچی میں 21 سال سے بند کراچی سرکلر ریلوے کو جزوی طور پر بحال کیا ہے جو شہر کی آبادی کے حساب سے ناکافی ہے۔مناسب ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث شہر کے رہائشی روائتی منی بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ نجی شعبے کی ان منی بسوں کو زیادہ منافعے کے لیے مرمت بھی نہیں کیا جاتا۔  

انجینیئر سدا بخش درس کے مطابق ان کا عملہ ٹریفک پولیس کی مدد سے گاڑیوں کو روک کر سلنسر میں ایک سینسر لگا کر آلات کی مدد سے نکلنے والی گیسوں کی مقدار جانچتے ہیں۔ ’جب کسی گاڑی سے نکلنے والی گیسوں کی مقدار معیار کے مطابق ہو تو اس پر ہرا سٹیکر لگایا جاتا ہے، جب کہ ٹیسٹ پاس نہ کرنے والی گاڑیوں پر لال سٹیکر کے ساتھ جرمانہ عائد کر کے مالکان کو گاڑی ٹھیک کرانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کبھی کبھی گاڑی مالکان کے پاس ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کا فٹنس سرٹیفکیٹ بھی ہوتا ہے، مگر جب ہم گاڑی چیک کرتے ہیں تو وہ ان فٹ ہوتی ہے، اس لیے گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ دینے کے طریقہ کار کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔‘  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات