جاپان: نو قتل کرنے والے ’ٹوئٹر کلر‘ کو سزائے موت سنا دی گئی

جاپان میں ایک عدالت نے ٹوئٹر کے ذریعے رابطہ کر کے آٹھ خواتین سمیت نو افراد کا قتل کرنے والے سیریل کلر کو موت کی سزا سنا دی ہے۔

جاپانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق تکاہیرو شیرائشی کو ٹوکیو ڈسٹرکٹ کورٹ کی ٹاچیکوا برانچ نے قتل، لاشوں کو مسخ کرنے اور نو افراد کی لاشوں کو ٹوکیو کے قریب اپنے اپارٹمنٹ میں رکھنے جیسے جرائم کا مرتکب پایا۔(اے ایف پی فائل)

جاپان کی ایک عدالت نے ملک میں ’ٹوئٹر کلر‘ کے نام سے مشہور 2017 میں نو افراد کے سلسلہ وار قتل کرنے والے شخص کو سزا سنا دی۔ ان کا شکار ہونے والوں میں اکثریت خواتین کی تھی۔

جاپانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق تکاہیرو شیرائشی کو ٹوکیو ڈسٹرکٹ کورٹ کی ٹاچیکوا برانچ نے قتل، لاشوں کو مسخ کرنے اور نو افراد کی لاشوں کو ٹوکیو کے قریب اپنے اپارٹمنٹ میں رکھنے جیسے جرائم کا مرتکب پایا۔

شرائشی نے حال ہی میں عدالت میں یہ قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا لیکن یہ معاملہ اس وقت پیچیدہ ہو گیا جب ان کے وکیل نے یہ موقف اپنایا کہ ان الزامات کی سنگینی کو کم کرنا چاہیے کیونکہ قتل ہونے والے افراد خود کشی سے متعلق سوچ رہے تھے اور قتل میں ان کی ’مرضی شامل‘ تھی۔

لیکن عدالت کے جج ناوکونی یانو نے فیصلہ دیا کہ قتل ہونے والے افراد نے اپنے قتل کے لیے رضا مندی ظاہر نہیں کی تھی اور شرائشی ذہنی طور پر صحت مند ہیں اس لیے ان افراد کے قتل کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔

شیرائشی پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے متاثرین کے ساتھ ٹوئٹر کے ذریعے رابطہ کیا جن کی عمر 15 سے 26 سال کے درمیان تھی اور جو اپنی زندگی ختم کرنے سے متعلق بات کر رہے تھے۔ شیرائشی نے ان کو بتایا کہ وہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ مر سکتے ہیں۔ ان کو ریپ کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جاپانی میڈیا کے مطابق ان کے نو متاثرین میں سے آٹھ خواتین تھیں جن میں سے ایک کی عمر 15 سال تھی۔ وہ واحد مرد جسے شیرائشی نے قتل کیا وہ شخص تھا جس نے اپنی لاپتہ ہونے والی گرل فرینڈ کے حوالے سے ان سے سوالات کیے تھے۔ 

شیرائشی کو سال 2017 میں پولیس نے اس وقت حراست میں لیا تھا جب پولیس ایک 23 سالہ خاتون کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے تفتیش کر رہی تھی۔

اطلاعات کے مطابق اس خاتون نے بھی اپنی جان لینے کے حوالے سے ٹویٹ کی تھی اور شیرائشی کا شکار بن گئیں تھیں۔ جب پولیس ٹوکیو کے قریبی شہر زاما میں شیرائشی کے فلیٹ پر پہنچی تو انہیں وہاں مسخ شدہ لاشوں کے ٹکڑے اور ہڈیاں ملیں۔

سلسلہ وار قتل کے ان واقعات نے جاپان میں بھونچال برپا کر دیا تھا اور سوشل میڈیا اور دماغی صحت اور خود کشی سے متعلق بات کرنے کے حوالے سے بحث چھیڑ دی تھی۔ اس واقعے کے بعد ٹوئٹر نے بھی نئی گائڈلائنز کے تحت ایسے مواد کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا تھا جس میں ’خود کشی یا خود کو نقصان دینے کو فروغ دیا جائے یا اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔‘

سات صنعتی ممالک کے گروپ میں جاپان میں خود کشی کی شرح سب سے زیادہ ہے جہاں ہر سال 20 ہزار سے زائد لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں۔ گو کہ 2003 میں بلند ترین سطح پر جانے کے بعد یہ شرح اب کم ہوتی جا رہی ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا