'ریپ کے بعد جب میرا ٹو فنگر ٹیسٹ ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ کہ وہی عمل میرے ساتھ اس ٹیسٹ کے دوران دوبارہ دہرایا گیا ہے۔ مجھے پھر ریپ کیا گیا ہے۔ جس لیڈی ڈاکٹر نے یہ ٹیسٹ کیا اسے خود بھی یہ ٹیسٹ نہیں کرنا آتا تھا۔'
'پھر انہوں نے اپنے ایک سینیئر مرد ڈاکٹر کو بلایا جنہوں نے آتے ہی صرف یہ بتانے کے لیے کہ ان کا تجربہ کتنا زیادہ ہے، وہی ٹیسٹ مجھ پر آزمایا اورلیڈی ڈاکٹر کو اسی وقت رپورٹ میں لکھنے کے لیے اس ٹیسٹ کا نتیجہ بھی بتا دیا۔'
یہ قصہ ریپ کی متاثرہ ایک خاتون نے سدرہ ہمایوں کو خود بتایا جو گذشتہ دودہائیوں سے ریپ سے متاثرہ خواتین اور بچوں اور انسانی و خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو ریپ کی شکار ایک خاتون کی آپ بیتی بتاتے ہوئے سدرہ نے مزید بتایا: 'میرے خیال میں ریپ کی شکایت لے کر جانے والی خواتین بہت بہادر ہوتی ہیں، جس کا اندازہ کوئی عام شخص نہیں لگا سکتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ریپ سے متاثرہ ایک خاتون جو پہلے ہی ٹراما میں ہوتی ہے، اسے پہلے سے بتائے بغیر، اسے کچھ بھی سمجھائے بغیر یا اس کی مرضی جانے بغیرایک دم یہ ٹیسٹ کرلیا جائے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ معائنہ نہیں بلکہ کچھ اور ہوا ہے۔'
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے جنسی تشدد، ریپ اور بدفعلی کی شکار خواتین کے ٹو فنگر میڈیکل ٹیسٹ کی شرط غیرآئینی قرار دے دی ہے۔
فیصلے کے مطابق ٹوفنگر ٹیسٹ کا اقدام آئین کے آرٹیکل 9 ، 14 اور 25 سے متصادم ہے۔ جب کہ فیصلے میں حکومت کی ٹو فنگر ٹیسٹ کے حوالے سے 2015 اور 2020 کی گائیڈ لائن کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے 30 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ متاثرہ خواتین کا ٹوفنگر ٹیسٹ نہ کیا جائے۔
عدالت نے ریپ سے متاثرہ خواتین کے لیے صوبائی حکومت کو بین لااقوامی معیار کے مطابق گائیڈ لائنز بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے عدالتی فیصلے میں لکھا کہ خواتین سے ریپ کیسز کا ٹرائل انتہائی محتاط طریقے سے شہادت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ قانون شہادت آرڈر میں 2016 میں ترمیم کے باوجود متاثرہ خواتین کے کردار پر بڑے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ویمن رائٹس آرگنائزیشن سمیت دیگر اداروں نے ٹو فنگر ٹیسٹ پر پابندی لگائی ہے جبکہ پاکستان نے اقوام متحدہ کا ممبر ہونے کی وجہ سے معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ پاکستانی اور یورپی یونین سمیت دیگر ممالک کی عدالتوں نے بھی متاثرہ خواتین کے کردار پر سوال کرنے پر پابندی عائد کررکھی ہے جبکہ اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 بھی شیڈول میں جرائم سے متاثرہ خواتین کا ٹو فنگر ٹیسٹ روکتا ہے۔ ریپ آرڈینس کے تحت متاثرہ خاتون کے کردار کشی والی شہادت قابل قبول نہیں ہوگی۔ ٹوفنگر ٹیسٹ متاثرہ خاتون کو ہی فوکس کرتا ہے جبکہ مرد ملزم کا ٹیسٹ نہیں لیا جاتا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ صرف خاتون کا ٹوفنگر ٹیسٹ کرنا صنفی امتیاز پر مبنی ہے۔ اگر متاثرہ خاتون ٹوفنگر ٹیسٹ کے بعد کنواری نہ پائی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریپ نہیں ہوا۔
عدالتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ٹوفنگر ٹیسٹ متاثرہ خاتون کے اپنے جسم پر حق کے بارے میں اس کی پرائیویسی میں مداخلت کرتا ہے۔ ٹوفنگر ٹیسٹ عورت کی عظمت کے خلاف ہے۔ یہ ٹیسٹ لینے سے قبل متاثرہ خاتون سے یا اس کے سرپرست سے تحریری اجازت لی جاتی ہے جو بامقصد نہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ متاثرہ خاتون کے کسی مرد پر زیادتی کا الزام لگانے پرضروری نہیں کہ اس کا ٹو فنگر ٹیسٹ لیا جائے۔ پنجاب حکومت نے ٹوفنگر ٹیسٹ کے متعلق 2020 کی گائیڈ لائنز اور ایس او پیز جلد بازی میں منظور کیے۔
ٹو فنگر ٹیسٹ کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے؟
سدرہ ہمایوں کے خیال میں: 'ٹو فنگر ٹیسٹ ایک خودساختہ طریقہ کار ہے۔ یہ ٹیسٹ ریپ کی شدت جاننے کے لیے نہیں بلکہ یہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے کہ متاثرہ خاتون نے جنسی تعلق کا تجربہ اپنی زندگی میں کتنی بار کیا ہے۔ یہ ٹیسٹ صرف ان عورتوں پر کیا جاتا ہے جن کی عمر 16 سال سے زیادہ ہو، ریپ ہونے والی چھوٹی بچیوں پر یہ ٹیسٹ نہیں کیا جاتا۔'
سدرہ کہتی ہیں کہ یہ کوئی کیمیکل ٹیسٹ نہیں ہے، نہ ہی طبی لحاظ سے اس کی کوئی اہمیت ہے۔ یہ اس خطے کا ایجاد کیا ہوا ٹیسٹ ہے جو کہ غلط اور بیمار ذہن کی پیداوار ہے۔ یہ طریقہ کار بدقسمتی سے سینئیر ڈاکٹروں نے اپنے جونیئر ڈاکٹروں میں منتقل کیا ہے۔ آج سے بیس سال پہلے بھی میڈیکولیگل رپورٹ میں لکھ دیا جاتا تھا کہ خاتون جنسی تعلق کی عادی ہے۔ اس پر ہم احتجاج کیا کرتے تھے کہ میڈیکل رپورٹ میں یہ مت لکھیں، کیونکہ اگر ریپ ہونے والی خاتون شادی شدہ ہے تو ظاہری بات ہے کہ وہ ایک ازدواجی زندگی گزار رہی ہے اور اگر اس کا ریپ ہو جاتا ہے اور آپ رپورٹ میں لکھ دیتے ہیں کہ متاثرہ خاتون جنسی تعلق کا تجربہ رکھتی ہے تو صرف یہ لکھنے سے اس متاثرہ عورت کا کیس کورٹ میں جا کر خراب ہو جاتا ہے۔'
سدرہ ہمایوں کا کہنا ہے کہ 'جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خواتین اس ٹیسٹ کی وجہ سے ریپ کی شکایت نہیں درج کرواتیں تو میں اس سے متفق نہیں ہوں، کیونکہ خواتین کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کوئی ایسا ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر اگر ہم پڑھی لکھی یا ان پڑھ خاتون کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں۔ ضروری نہیں کہ اس ٹیسٹ کا پڑھی لکھی خاتون کو بھی معلوم ہوگا۔'
انہوں نے مزید بتایا: المیہ تو یہ ہے کہ وہ لیڈی ڈاکٹرز جو یہ ٹیسٹ کر رہی ہوتی ہیں، جب نئی نئی ہسپتال میں نوکری شروع کرتی ہیں تو خود ان کے لیے یہ ایک بہت حیران کن اور پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے کہ اس ٹیسٹ سے ثابت کیا ہوگا؟ مختصراً یہ کہ یہ ٹیسٹ ایک انتہائی خوفناک اثر چھوڑتا ہے، اس پر جو اسے کر رہا ہے، جس پر یہ ٹیسٹ کیا جارہا ہے اور جو اسے ہوتا دیکھ رہا ہے۔ اس طریقہ کار کو ٹیسٹ کا نام بھی نہیں دیا جاسکتا۔ میں اسے ریپ کے بعد دوبارہ ریپ کے زمرے میں رکھتی ہوں۔ پاکستان میں اس ٹیسٹ کے خلاف تحریری فیصلہ آنا ایک بہت اچھی بات ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر ویرتا علی اجن جو کہ طبی ماہر بھی ہیں اور خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کرتی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹو فنگر ٹیسٹ عورت کے خلاف ایک سنگین جرم تھا۔ اس وقت اس بات کی انتہائی ضرورت تھی کہ اسے ختم کیا جاتا۔ اس ٹیسٹ کے پیچھے آئیڈیا یہی تھا کہ متاثرہ خاتون کو ہی ریپ کا مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ جس جنسی حملے کا وہ دعویٰ کر رہی ہے اس کو غلط ثابت کیا جائے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ دخول (Penetration) جنسی حملے میں ضروری ہے۔ دوسرا اگر خاتون کنواری نہیں تھی اس لیے اس پر جنسی حملہ نہیں ہوا۔ تیسرا یہ کہ اگر وہ شادی شدہ نہیں تھی اور کنواری بھی نہیں تو وہ اس جنسی حملے کی مستحق تھی۔ چوتھا یہ کہ اسے ریپ کی شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ اس خاتون کے خاندان کو یہ خوف ہوگا کہ دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کنواری نہیں ہے, اس لیے ان بنیادوں پر ٹو فنگر ٹیسٹ کیا جاتا تھا اور یہ سارے مفروضے اس میں شامل تھے۔'
دوسری جانب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ سحر بندیال نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس فیصلے کے حوالے سے کہا: 'قانونی لحاظ سے یہ فیصلہ بہت اہم ہے, کیونکہ جس طرح ریپ وغیرہ کے کیسسز میں میڈیکولیگل معائنے کیے جارہے تھے، اس میں ٹو فنگر ٹیسٹ کے بعد میڈیکل آفیسر یہ نتیجہ بتاتا تھا کہ خاتون جنسی تعلق کی عادی ہے یا کنواری ہے۔ اگر نتیجے میں وہ عادی نکلے تو ان کا خیال ہوتا تھا کہ اس ریپ میں بھی اس کی اپنی مرضی شامل تھی۔ جب میڈیکولیگل رپورٹ میں یہ نتائج لکھے جاتے تھے تو اس کی بنیاد پرعدالت فیصلہ کرتی تھی کہ خاتون چونکہ عادی تھی اور یہ عمل بھی اس کی رضا سے ہوا اس لیے اسے ریپ نہیں کہا جائے گا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ خاتون کے کردار اور اخلاق پر سوال اٹھا کر یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ یہ تو بد کردار عورت ہے۔'
سحر بندیال کے مطابق: 'ہمیں ریپ کیسز میں ایسے فیصلے ملتے ہیں جہاں اس ٹیسٹ کی بنیاد پر ایسی زبان استعمال کی گئی۔ 2016 سے پہلے ایسی ججمنٹس زیادہ تھیں مگر 2020 میں بھی ایک ایسی ججمنٹ آئی جس میں خاتون کے بارے میں یہی کچھ لکھا گیا۔ اس کے باوجود کہ 2016 میں قانون شہادت کے آرڈر میں ترمیم کی گئی اور بتایا گیا کہ اب عورت کے کردار پرسوال نہیں اٹھائے جاسکتے۔ اب جو اس ٹیسٹ کے حوالے سے فیصلہ آیا ہے یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ آپ ایسے سوال نہیں پوچھ سکتے۔ آپ ٹو فنگر ٹیسٹ نہیں کر سکتے کہ جس کے نتیجے میں آپ خاتون کے بیان یا گواہی کو تسلیم نہ کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک بد کردار عورت کا ریپ نہیں ہوسکتا۔ اس فیصلے نے ایک ایسا ٹیسٹ ختم کردیا جس کی دنیا بھر میں کوئی طبی اہمیت نہیں ہے یہ فیصلہ متاثرہ خاتون کے وقار کو تحفظ دے گا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'اس فیصلے کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ قانون خواتین کو اچھی عورت یا بری عورت کے زمرے میں تقسیم کرکے یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ ریپ میں کس عورت کی مرضی شامل تھی اور کس کی نہیں۔ آپ دوسرے ثبوتوں کو دیکھیں، دیگر میڈیکل ٹیسٹ کر کے دیکھیں نہ کہ عورت کے کردار پربات کریں۔ اس لحاط سے یہ ایک اہم فیصلہ ہے۔'