اسامہ ستی قتل کیس: کب کب کیا ہوا؟

یکم اور دو جنوری کی درمیانی رات کو پولیس کو ملنے والی ڈکیتی کی کال سے لے کر اسامہ کی ہلاکت تک کے تمام واقعات کی تفصیل۔

اسامہ کی ہلاکت کی تفصیل (گوگل میپس)

اسلام آباد پولیس کے مطابق پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے اسامہ ستی نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوج (نسٹ) سے جی 10 اسلام آباد تک آٹھ کلومیٹر تک گاڑی دوڑائی جس کی وجہ سے پولیس کو شک پیدا ہوا، جو اسامہ کی ہلاکت کا باعث بنا۔

22 سالہ اسامہ ندیم ستی جو دو جنوری کو اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے (سابقہ کشمیر ہائی وے) پر جی 10 کے اشارے سے کچھ میٹر آگے پولیس کی انسداد دہشت گردی فورس کی گولیوں کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

یہ وقوعہ کیسے پیش آیا؟

انڈیپنڈنٹ اردو نے پولیس سے تفصیلی بات چیت کی اور پولیس لاگ بُک سے وقوعے کی تفصیل اور وقت معلوم کیا۔ ایس پی نعیم ملک نے یکم اور دو جنوری کی درمیانی رات کو پیش آنے والے واقعات کی جو تفصیلات بتائیں وہ نیچے پیش کی جا رہی ہیں۔

11 بج کر 45 منٹ

پولیس کو کال موصول ہوئی کہ سیکٹر ایچ-13 میں پیرس کالونی گلی نمبر 15 میں ایک گھر میں چھ ڈاکوؤں نے ڈاکہ ڈالا ہے۔

پولیس موقعے پر پہنچ گئی اور ضروری کاغذی کارروائی کی۔ اسی دوران ایس ایچ او کو پتہ چلا کہ وہاں قریب ریلوے لائن پہ زیادہ تعداد میں کتے بھونک رہے ہیں۔ ایس ایچ او وہاں ریلوے لائن پہ سرچ کروانے چلے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک بج کر 15 منٹ

پولیس کو دوسری کال موصول ہوئی کہ اسی حلیے کے ڈاکو اسی علاقے میں چھ نمبر گلی میں واردات کر کے نکلے ہیں۔ ہماری ٹیم نے فوراً اس لوکیشن کی طرف پیش رفت کی۔

ایک بج کر 28 منٹ

ایس ایچ او کی کال آئی کہ ایک سفید رنگ کی آلٹو گاڑی جس کے کالے شیشے ہیں وہ H-12 سے تیزی سے نکلی ہے اور کشمیر ہائی وے کی طرف جا رہی ہے۔ ایس ایچ او نے کہا کہ ممکنہ طور پہ اس گاڑی میں ڈاکو ہو سکتے ہیں اور اس گاڑی کو روکا جائے۔

ایس پی نے بتایا: ہماری ایک پیٹرولنگ ٹیم (جو انسداد دہشت گردی فورس کی ہے) کشمیر ہائی وے پر گشت کر رہی تھی، ان کو وائرلس کال ملی تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ نسٹ کے پیٹرول پمپ کے قریب ہی ہیں اور اس گاڑی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔

سفید آلٹو گاڑی جب نسٹ H-12 سے نکل کر کشمیر ہائی وے پہ چڑھی تو گاڑی کا رخ ترنول کی جانب تھا۔ پولیس کی پِک اپ پہلے آلٹو گاڑی سے آگے تھی لیکن اسلام آباد چوک کے قریب پہنچ کر آلٹوگاڑی نے ریس دے کر گاڑی آگے نکال لی اور راؤنڈ اباؤٹ نیچے سے گھوم کر سیکٹر G-13  جانے کےبجائے دوبارہ اوپر کشمیر ہائی وے پہ چڑھ گئی اور گاڑی کا رُخ اب زیرو پوائنٹ کی جانب تھا۔

پولیس پِک اپ اور سفید آلٹو گاڑی کے درمیان تقریباً دو سو گز کا فاصلہ تھا۔

 

ایک بج کر 35 منٹ

اسامہ کی گاڑی کشمیر ہائی وے پر زیرو پوائنٹ کی جانب رواں تھی، پولیس پک اپ اس کا تعاقب کر رہی تھی۔ پِک اپ پر موجود ایک اہلکار کو کہا گیا کہ وہ گاڑی کی سن روف سے سر باہر نکال کر گاڑی کو نظر میں رکھےتاکہ وہ اوجھل نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ تب تک اندازہ نہیں ہوا تھا کہ گاڑی میں کتنے افراد سوار ہیں لیکن گاڑی مشکوک انداز میں رکے بغیر آگے دوڑتی جا رہی تھی۔

جی 11 والا اشارہ آیا وہ کُھلا تھا، آلٹو گاڑی نے وہ اشارہ کراس کیا پولیس کی گاڑی بھی پیچھے تھی۔

اس کے بعد پولیس لائن کا اشارہ آیا اس کو بھی کراس کیا اور گاڑی آگے بڑھتی رہی۔

جی 10 کا اشارہ بند تھا وہاں دو تین گاڑیاں بھی رکی ہوئی تھیں لیکن سفید آلٹو گاڑی نے جی ٹین کےاشارے پہ رکنے کے بجائے اشارہ توڑ دیا، پولیس کی گاڑی بھی اشارہ توڑتی ہوئی اس کے تعاقب میں رہی۔

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی جی ٹین کا اشارہ کراس ہوا تو اوپر کھڑے کانسٹیبل مصطفیٰ نے آلٹو گاڑی پہ پیچھے سے فائر کھول دیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ گاڑی کو سامنے سے فائر کیسے لگے جب آپ کہہ رہے ہیں کہ فائر پیچھے سے کیے گئے؟

تحقیقاتی افسر نے جواب دیا کہ گاڑی کے فورینزک تجزیے میں ثابت ہو گیا ہے کہ تمام فائر پیچھے سے ہوئے ہیں اور جو ونڈ سکرین پر نشان ہے وہ پچھلے شیشے سے فائر کی جانے والی گولی کا ’ایگزٹ پوائنٹ‘ تھا۔ باقی 18 فائر گاڑی کی باڈی کو پیچھے سے ہی سائیڈ اور چھت پہ لگے۔

جی ٹین کے سگنل سے کچھ گز آگے اسامہ کی گاڑی لہرانے لگی۔ پولیس اہلکاروں کو علم نہیں تھا کہ کہ گاڑی میں سوار ہونے والا شدید زخمی ہو چکا ہے۔

ایک بج کر 44 منٹ

اسامہ کی گاڑی فاسٹ لین میں سڑک کے کنارے پر رک گئی۔ اہلکاروں نے گاڑی کے پاس جا کر دیکھا، پہلے آواز دی، جواب نہ ملنے پر دروازہ کھولا گیا تو دیکھا کہ ڈرائیور کا سر سٹیئرنگ پہ لڑھکا ہوا ہے اور گاڑی میں اس کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں ہے۔

تحقیقاتی افسر کے مطابق اسامہ اس وقت سانسیں لے رہے تھے، ۔ فوراً ریسکیو 1122 کو فون کیا گیا لیکن ایمبولینس نہیں پہنچی۔ اسی اثنا میں اسامہ دم توڑ چکے تھے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سر پہ لگنے والی گولی سر کو چھو کر گزری جبکہ کچھ گولیاں کمر سے لگیں اور چھاتی سے باہر نکل گئیں وہ جان لیوا ثابت ہوئیں۔

ایک بج کر 55 منٹ

ایس پی نعیم ملک خود بھی جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسامہ کے موبائل ڈیٹا ریکارڈ سے علم ہوا کہ اس کے دوست اور وہ خود بھی آئس نشے کا شکار تھے۔

اسامہ کو گولیاں سامنے سے لگیں یا پیچھے سے

بدھ کو ہونے والی سماعت میں جج راجہ جواد عباس نے استفسار کیا کہ اسامہ کو کتنی گولیاں اور کہاں کہاں لگیں۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اسامہ کو پانچ گولیاں پیچھے سے لگیں۔ 

عدالت نے کہا کہ بغیر سیٹ سے نکلے گولی پیچھے سے نہیں لگ سکتی، جس سیٹ سے نکل کر پانچ گولیاں لگیں وہ تصویر دکھائیں۔

اس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ سر وہ تصویر نہیں ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ تفتیشی نے اصل تصویر نہیں بنائی اس کا مطلب ’تم سب ملزمان سے ملے ہوئے ہو۔ گاڑی کے پیچھے کی تصویر لے کر آئے ہو لیکن وہ تصویر ہی نہیں جس میں سامنے سے گولی لگی۔‘ 

عدالت نے تمام چیزیں ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا اور گرفتار پولیس اہلکاروں کا  مزید سات روزہ جسمانی ریمانڈ منظورکر لیا۔

پولیس کو منشیات کا شک لیکن منشیات بھی نہیں ملیں

پولیس کا یہ کہنا ہے کہ شاید اسامہ کی گاڑی میں کچھ منشیات تھیں۔ جب ہم نے ان سے یہ سوال کیا کہ آپ کا پولیس اہلکار مسلسل اس گاڑی کو نظر میں رکھے ہوئے تھا تو اس کو نظر نہیں آیا کہ اگر اسامہ کے پاس مبینہ طور پہ منشیات تھیں اور انہوں نے پھینکی یا بعد میں اس آٹھ کلومیٹر کے راستے میں تلاش کے دوران وہاں کچھ ملا؟

تحقیقاتی افسر نے کہا کہ ہمیں نسٹ سے لے کر جی 10 تک منشیات کا کوئی مواد نہیں ملا، اور نہ ہی اسامہ کے پاس کسی قسم کا اسلحہ موجود تھا۔

اسامہ دوست کو ڈراپ کرنے گئے تھے

ادھر اسامہ کے والد ندیم ستی کے مطابق اسامہ دو جنوری کو صبح دو بجے کے قریب نسٹ یونیورسٹی اپنے دوست کو ڈراپ کرنے گئے تھے اور واپسی پر پولیس اہلکار ان کے پیچھے لگے اور انہیں جان سے مار دیا۔

انہوں نے کہا کہ نسٹ جو سیکٹر H-12  میں واقع ہے وہاں سے اسامہ نے گھر واپس آنا تھا۔ واضح رہے کہ اسامہ کا گھر G-13  میں ہے۔

اسامہ کے والد کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن اہلکاروں نے اسامہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا ان سے ایک روز قبل اسامہ کی معمولی تلخ کلامی بھی ہوئی تھی اور پولیس اہلکاروں نے اسامہ کو دھمکایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان