مچھ واقعہ: 'چھوٹا بھائی لڑائی کے بعد اب کس سے شکایت کرے گا؟'

چھٹی جماعت کی طالبہ ریحانہ مچھ میں اپنے والد کے قتل کے بعد اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔

اپنے والد کی تصویر کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے والی ریحانہ کے لیے یہ غم کسی قیامت سے کم نہیں کہ ان کا واحد سہارا بھی نہیں رہا۔

انہیں یہ غم ستائے جا رہا ہے کہ اب ان کے گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ ان کے والد کا خواب کیسے پورا ہوگا۔ ریحانہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، جن کے پیاروں کو بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات مسلح افراد نے ہاتھ پاؤں باندھ کر بے دردی سےقتل کردیا تھا۔ یہ 10 افراد مچھ کے علاقے گیشتری میں ایک کوئلے کی کان میں مزدوری کرتے تھے۔

ریحانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'وہ لمحہ انتہائی کرب ناک تھا جب ہمیں والد کے مرنے کی خبر ملی، اسے لفظوں میں بیان کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔'

وہ بتاتی ہیں کہ اس حادثے سے قبل ان کی زندگی بہت خوبصورت تھی، ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں کیوں کہ اس پیشے کے ذریعے لوگوں کی مدد کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔ چھٹی جماعت کی طالبہ ریحانہ اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں، ان کا کہنا تھا: 'زندگی اور خواب بکھر گئے ہیں۔ اب تو زندگی کا پہیہ چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔'

انہوں نے بتایا کہ ان کے والد چونکہ ایک ہمدرد انسان تھے اس لیے وہ ہم لوگوں کو بھی ایسا بنانا چاہتے تھے۔ ریحانہ کی دو بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے، جس کی عمر چار سال ہے۔ ان کے گھر میں کوئی ایسا نہیں جو ان کے والد کے جنازے کو کندھا دے سکے۔

ریحانہ نے بتایا کہ ان کا چھوٹا بھائی ان سے لڑائی کے بعد کہتا تھا کہ وہ ابو کو میری شکایت کرے گا، لیکن اب وہ کس سے شکایت کرے گا۔ وہ اور دیگر لواحقین سمیت ہزارہ برادری کے افراد نے گذشتہ چار دن سے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر دھرنا دے رکھا ہے، ان کا مطالبہ ہےکہ جب تک وزیر اعظم ان کے مطالبات سننے کے لیے نہیں آئیں گے، وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے اور نہ ہی میتیں دفنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں حکمرانوں کے جھوٹے وعدے اور دعوے نہیں بلکہ انصاف چاہیے کیونکہ ان کے بے گناہ والد کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ دوسری جانب دھرنے کے شرکا سے وفاقی وزیر علی زیدی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے بھی مذاکرات کیے اور دھرنا ختم کرنے کا مطالبہ کیا، جسے شرکا نے مسترد کردیا۔

علی زیدی نے اس موقعے پر دھرنے کے عمائدین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 'جب ہم حکومت میں نہیں تھے، تب بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔'

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے آج ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں صوبے کے امن وامان کے حوالے سے بریفنگ لی۔ اس موقعے پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ 'حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شرکا کو منانے اور میتیں دفنانے کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی آج دھرنے کے مقام پر پہنچے اور اپیل کی کہ ان کے مطالبات وزیراعظم تک پہنچا دیے جائیں گے لیکن وہ میتوں کو دفنانے کی اجازت دیں، تاہم ان کا مطالبہ بھی مسترد کردیا گیا۔

کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے علاوہ علمدار روڈ سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی دھرنے دیے گئے ہیں۔  دھرنے میں شامل افراد کے لیے شاہراہ پر چائے اور پانی کی فراہمی کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں اور کسی ایمرجنسی کے لیے ایمبولینسیں بھی موجود ہیں۔

دھرنے کی وجہ سے مغربی بائی پاس کی شاہراہ پر ٹریفک معطل ہے اور دھرنے کی طرف جانے والے راستوں کو پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں نے بند کررکھا ہے۔

ریحانہ اور دیگر لواحقین کو یقین کہ ان کے احتجاج سے ان کے پیارے تو واپس نہیں آئیں گے، لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں اںصاف فراہم کیا جائے اور یقین دہانی کروائی جائے کہ ایسا سانحہ ان کی برادری کے ساتھ دوبارہ نہیں ہوگا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی