صرف دس روپے میں علاج کرنے والی بھارت کی مسلمان ڈاکٹر

ڈاکٹر نوری پروین نے کہا کہ خدمت خلق کا جذبہ انہیں وراثت میں ملا ہے اور جب تک زندہ ہیں مریضوں کا علاج دس روپے میں کرتی رہیں گی۔

’الحمد للہ، میں جو کام کرتی ہوں مجھے اس سے قلبی سکون ملتا ہے۔ اس دنیا میں کوئی پیسوں تو کوئی سماج میں اپنا سٹیٹس بڑھانے کے لیے کام کرتا ہے۔ میں لوگوں کی دعا حاصل کرنے کے لیے کام کرتی ہوں۔ جب مریض مجھے دعا دیتے ہیں تو مجھے اتنی خوشی محسوس ہوتی ہے جس کو میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔‘

یہ الفاظ بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے شہر وجئے واڑہ سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ ڈاکٹر نوری پروین عرف نوری پری کے ہیں جو اسی ریاست کے کڑپہ میں اپنا ایک نجی کلینک چلاتی ہیں جہاں وہ محض دس روپے کے عوض مریضوں کا علاج کرتی ہیں۔

ڈاکٹر نوری پروین نے انڈپینڈنٹ اردو سے تفصیلی گفتگو میں کہا کہ خدمت خلق کا جذبہ انہیں وراثت میں ملا ہے اور جب تک زندہ ہیں مریضوں کا علاج دس روپے میں کرتی رہیں گی۔

’میں اپنے کلینک پر ہر روز تقریباً 50 مریضوں کو دیکھتی ہوں۔ اس کلینک کے دروازے مریضوں کے لیے 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ میرے والدین مجھ سے کہتے ہیں کہ ہمیں تم سے کچھ نہیں چاہیے سوائے اس کے کہ لوگوں کی دعا لیتی رہو۔‘

متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی ڈاکٹر نوری پروین نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک اردو میڈیم سکول سے حاصل کی ہے۔

ڈاکٹر نوری نے ایم بی بی ایس کی ڈگری کڑپہ میں واقع فاطمہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے حاصل کی اور وہ مستقبل میں ایک ملٹی سپر سپیشلٹی ہسپتال قائم کرنا چاہتی ہیں جہاں کسی بھی شعبے میں علاج کے لیے مریضوں کو صرف دس روپے دینے پڑیں۔

’میں ایک ملٹی سپر سپیشلٹی ہسپتال قائم کرنا چاہتی ہوں جس میں او پی ڈی کنسلٹیشن فیس محض دس روپے ہوگی۔ بھلے ہی مریض کو کسی بھی شعبے میں کسی بھی ڈاکٹر سے اپنا علاج کروانا ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مریضوں کا دس روپے میں علاج کا خیال کیسے آیا اس پر ڈاکٹر نوری کا کہنا تھا کہ ’ہماری ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ آنجہانی ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی ایک روپیہ فیس لے کر مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ سابق وزیر مرحوم ڈاکٹر خلیل باشا محض دو روپے کی کنسلٹیشن فیس کے عوض مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ ان دونوں شخصیات سے مجھے کافی تحریک و ترغیب ملی اور میں نے مریضوں کا دس روپے میں علاج کرنا شروع کر دیا۔

’میں ایک ایسے شخص سے شادی کرنا چاہوں گی جو یہ مشن آگے بڑھانے میں میری مدد اور میرا بھرپور ساتھ دینے کے لیے تیار ہو۔ اگر مجھے اس طرح کا شخص نہیں ملا تو میں شادی ہی نہیں کروں گی۔ میں اپنے کام اور خوابوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ میں خدمت خلق کبھی چھوڑنے والی نہیں ہوں۔‘

ڈاکٹر نوری پروین کا ایک بھائی اور ایک بہن ہیں اور وہ بھی طب کے پیشے سے ہی وابستہ ہیں۔ ان کے والد محمد مقبول رئیل سٹیٹ کا بزنس کرتے ہیں۔

’ڈاکٹر نوریز ہیلتھ کیئر‘ کڑپہ میں ایک نجی عمارت سے آپریٹ کر رہا ہے جس کا ماہانہ کرایہ 20 ہزار روپے ہے اور انہیں کلینک چلانے پر ماہانہ تقریباً 60 ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

’اب آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوگا کہ کمروں کا کرایہ اور عملے کی تنخواہ کہاں سے آتی ہے۔ ہمیں ادویات کی فروخت اور ٹیسٹ لیبارٹری سے 20 فیصد فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ الحمد اللہ میں ان ہی پیسوں سے کلینک چلانے پر آنے والا خرچہ پورا کر رہی ہوں۔‘

ڈاکٹر نوری ’انسپائرنگ ہیلدی ینگ انڈیا‘ نامی ادارے کی بانی اور چیئرپرسن بھی ہیں جس کے تحت وہ انسانی صحت سے متعلق مختلف نوعیت کے پروگراموں کا انعقاد کرتی ہیں، ساتھ میں وہ اپنے دادا نور محمد کے نام پر قائم ’نور چیریٹیبل ٹرسٹ‘ کے تحت فلاحی کام انجام دیتی ہیں۔

ڈاکٹر نوری کا کہنا ہے کہ خدمت خلق کا جذبہ انہیں وراثت ہی میں ملا ہے۔

’میرے دادا نور محمد کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر تھے۔ وہ ایک ایسے سماجی جہدکار تھے جنہوں نے اپنی زندگی خدمت خلق کے لیے وقف کر دی تھی۔ میرے والد مجھ سے اکثر کہتے تھے کہ تمہیں اپنے دادا کی طرح ضرورت مند لوگوں کی خدمت کرنی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین