سماجی رابطوں پر اتنی معلومات دیں جس سے آپ کی ایپ چل جائے

ایک عام صارف کو واٹس ایپ کی نئی پالیسی سے کتنا ڈرنا چاہیے؟ کیا صارفین متبادل ایپس پر جارہے ہیں؟ متبادل ایپس انسٹال کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟ نیز یہ کیا سب حقوق واٹس ایپ کو پہلے حاصل نہیں تھے؟

واٹس ایپ کی نئی پرئیویسی پالیسی آنے کے بعد ایپ صارفین تشویش کا شکار ہیں۔

بہت سے واٹس ایپ گروپس جیسے صحافیوں کے بنائے یا سوشل ایکٹویسٹس کے گروپس میں واٹس ایپ کو چھوڑ کر متبادل ایپس پر جانے کی بات ہو رہی ہے جب کہ کچھ گروپس تو دیگر ایپس پر چلے بھی گئے ہیں۔

واٹس ایپ کے نئے رازداری کے قواعد کے مطابق اگر صارفین واٹس ایپ استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ان کی معلومات آئندہ فیس بک سے بھی شئیر کی جائیں گی۔ جب کہ ان قوائد کا اطلاق یورپ اور برطانیہ میں مقیم صارفین پر نہیں ہوگا۔ صارفین کی ذاتی معلومات اب فیس بک بھی استعمال کر پائے گا۔

ان نئے قوائد کے حوالے سے سائبر سکیورٹی کے ماہر ارسلان اطہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: '2016 میں جب فیس بک نے واٹس ایپ خریدا تو پالیسی تبدیل ہوئی مگر اس وقت واٹس ایپ نے تمام صارفین کو یہ پوچھا تھا کہ کیا وہ  چاہتے ہیں کہ ان کے واٹس ایپ کی معلومات فیس بک کے ساتھ شئیر ہوں اگر وہ نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں وہ اس شرط کو مانے بغیر بھی واٹس ایپ استعمال کر سکتے ہیں۔ اس وقت بہت سے صارفین نے اس ترجیح کو منع کر دیا تھا مگر کچھ نے یہ آپشن قبول کر لی تھی۔ جنہوں نے بھی 2016 کے بعد واٹس ایپ استعمال کرنا شروع کیا ان کی ڈیفالٹ سیٹنگ تھی جس میں فیس بک کے ساتھ معلومات شئیر کرنے کی شرط کو پہلے سے ہی مانا گیا تھا اس لیے ان کی معلومات پہلے ہی فیس بک کے ساتھ شئیر ہو رہی تھیں۔ جنہوں نے 2016 میں اس شرط کو ماننے کے لیے ہاں کی تھی ان کا ڈٰیٹا بھی فیس بک کے ساتھ شئیر ہو رہا تھا۔ '

'اب جن لوگوں نے واٹس ایپ کے ذریعے اپنی معلومات شئیر نہیں کی تھیں وہ اگر فیس بک یا واٹس ایپ پر تھے تو ان کا ڈیٹا ویسے ہی شئیر ہو رہا تھا کیونکہ یہ دونوں ایپس آپ کے ڈیٹا کو دیکھتی ہیں اسے پراسیس کرتی ہیں۔ 2016 سے 2020 تک یہی ہو رہا تھا۔ اب جو نئی پالیسی آئی ہے اس میں فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے آپ کو ڈیٹا شئیر کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہی نہیں دیا۔ پالیسی کے مطابق اگر آپ یہ کہیں کہ آپ اپنا ڈیٹا شئیر نہیں کرنا چاہتے تو آپ واٹس ایپ استعمال ہی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے آپ سے وہ اختیار ہی چھین لیا۔ آپ اسے انکار کر ہی نہیں سکتے اگر آپ نے ایپ استعمال کرنی ہے۔'

'جو لوگ اس پالیسی کو قبول کر کے ایپ استعمال کر رہے ہیں ان کی تمام معلومات جیسے آپ کہاں ہیں، آپ کا آئی پی ایڈریس کیا ہے، آپ کا اکاؤنٹ آپ کے موبائل نمر سے استعمال ہو رہا ہے تو آپ کا نمبر یہ سب معلومات واٹس ایپ کے پاس ہے۔ اس پالیسی کا زیادہ اثر واٹس ایپ پر بزنس اکاؤنٹس استعمال کرنے والوں پر ہوگا۔ کیونکہ وہ آپ کی تمام کاروباری سرگرمیاں دیکھ رہے ہیں۔ یہ معلومات زیادہ شئیر ہورہی ہیں بہ نسبت ایک عام صارف جو اپنی ذاتی چیزیں اپنے دوستوں وغیرہ سے شئیر کر رہے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ بزنس اکاؤنٹس سے وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کیا ٹرینڈز چل رہے ہیں اسی طرح انسٹا گرام پر بہت زیادہ بزنس اکاؤنٹس ہیں وہاں آپ مصنوعات دیکھ رہے ہیں، خرید رہے ہیں۔ اسی طرح اب واٹس ایپ پر بھی اگر آپ ایک بزنس گروپ میں کوئی سرگرمی کر رہے ہیں کوئی خرید و فروخت ہو رہی ہے پیسوں کا لین دین ہو رہا ہے تو یہ سب معلومات ان تک جائے گی۔ 'اس وقت جو سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے صارف کو اختیار نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نئی پالیسی یورپی یونین میں شامل ممالک اور برطانیہ پر لاگونہیں ہو گی کیونکہ ان کا قانون صارف کو اختیار دینے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس قانون کے مطابق دیے گئے اختیار یا آپشن کو قبول کرنا یا مسترد کرنا صارف کا حق ہے۔ لیکن جو واٹس ایپ کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ اس نئی پالیسی کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو آپ واٹس ایپ استعمال نہیں کر سکتے۔'

دوسری جانب واٹس ایپ کے ہیڈ کیتھ کارٹ نے اپنے غیر تصدیق شدہ ٹویٹر اکاؤنٹ سے دو روز قبل ایک ٹویٹ کی جس میں انہوں نے لکھا کہ 'نئی رازداری پالیسی کا اطلاق 8 فروری سے ہوگا اور اس کا اثر کاروباری اکاؤنٹس پر ہوگا نہ کہ عام صارفین پر۔'

اس ٹویٹ کے حوالے سے ارسلان کاکہنا تھا کہ کہ 'وہ غلط نہیں کہہ رہے لیکن پالیسی لاگو سبھی پرہوئی ہے یعنی واٹس ایپ اور فیس بک جب چاہیں  جس کا چاہیں ڈیٹا یا معلومات دیکھ سکتے ہیں وہ صرف سمارٹلی ایکٹ کررہے ہیں۔'

ایک عام صارف کو اس نئی پالیسی سے کتنا ڈرنا چاہیے؟

ارسلان کا کہنا ہے: 'اس میں مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ کی معلومات ڈیٹا پہلے بھی واٹس ایپ شئیر کر رہا تھا۔ جب آپ نے اس دیے جانے والی آپشن کو ہاں کیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے آپ کو معلوم نہیں تھا اور اب آپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ آپ کا ڈیٹا فیس بک کے ساتھ آپ کی مرضی جانے بغیر شئیر کیا جائے گا۔ واٹس ایپ کا یقیناً بیانیہ یہ ہوگا کہ ہم اینڈ ٹو ایڈ انکرپٹڈ ہیں۔ واٹس ایپ ایک پرائیویٹ کمپنی ہے اور وہ منافع کماتی ہے۔ اسی طرح فیس بک بھی۔ ہم ان کے اس بیانیے کو چیک نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ انہوں نے کہا ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان رہا ہے کہ ہمارے واٹس ایپ کے پیغامات انکرپٹڈ ہیں بھی یا نہیں؟ اس لیے مختلف ایپس موجود ہیں جن کے بیانیے کو ہم چیک کر سکتے ہیں جن میں سگنل ایپ ہے۔ یہ منافع کمانے والی کمپنی نہیں ہے۔ اس کا سارا کوڈ آن لائن موجود ہے جہاں سے جا کر آپ چیک کر سکتے ہیں کہ وہ اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ ہیں یا نہیں۔'

کیا صارفین متبادل ایپس پر جارہے ہیں؟

ارسلان کہتے ہیں: 'صارفین یقیناً دوسرے متبادل ایپس پر جا رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو جدید ٹیکنالوجی کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ تو باآسانی دوسری متبادل ایپس پر جارہے ہیں مگر وہ لوگ جو زیادہ عمر کے ہیں اور ٹیکنالوجی کو سمجھنا ان کے لیے کچھ مشکل ہے اور تبدیلی کو جلدی قبول نہیں کر پاتے وہ متبادل ایپس پر جانے کو پسند نہیں کریں گے۔ لیکن پاکستان کی حد تک میرا نہیں خیال کہ صارفین مکمل طور پر دوسری متبادل ایپ پر چلے جائیں گے۔ مشکل ہو گا۔'

متبادل ایپس انسٹال کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

'آج کل آن لائن بہت سی ایپس موجود ہیں جنہیں آپ واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی بھی ایپ کو انسٹال کرنے سے پہلے اچھی طرح اس کے باے میں ریسرچ کرلیں کیونکہ اس سے آپ کی سکیورٹی کو خدشہ ہو سکتا ہے۔'

ارسلان کا کہنا تھا: 'سگنل ایپ اچھی ہے مگر اس میں بھی کچھ ایشوز ہیں۔ اسی طرح ٹیلی گرام کے بھی کچھ ڈیٹا سکیورٹی ایشوز آرہے تھے مگر جو بھی ایپ استعمال کریں اس کے بارے میں اچھی طرح جانچ پڑتال کر لیں۔ لیکن اگر موجودہ حالات میں ہم واٹس ایپ اور سگنل کا موازنہ کریں تو سگنل معلومات کی سکیورٹی کے لحاظ سے بہتر ایپ ہے۔'

عام صارف کو کیا احتیاط کرنا ہوگی؟

ارسلان کے مشورے کے مطابق: 'ماسوائے آپ کے نام کے کوئی بھی ایسی معلومات جس سے آپ کی شناخت ہو سکے جیسے آپ کی تاریخ پیدائش، آپ کے گھر کا پتا، آپ کا فون نمبر وغیرہ جو اکثر لوگ ڈال دیتے ہیں یہ معلومات آپ شئیر نہ کریں۔ بس اتنی معلومات دیں جس سے آپ کی ایپ چل جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر آپ انسٹاگرام پر ہیں یا فیس بک پر تو آپ یہ ضرور دیکھیں کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں؟ کون آپ کو فالو کر رہا ہے؟ کوئی ایسا نہ ہو کہ آپ کسی کو بالکل ہی نہ جانتے ہوں۔

جہاں تک تصاویر کا تعلق ہے تو ایک بار آپ کی تصویر آن لائن لگی وہ آپ کے ہاتھ سے چلی گئی ۔ انٹرنیٹ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر آپ اپنی تصویر ڈیلیٹ بھی کر لیں تو بھی وہ باہر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کے پاس موجود ہے کیونکہ آپ نہیں جانتے کس نے اسے اپنے پاس محفوظ کر لیا ہے۔ آپ کو اپنی ایک حد کا تعین کرنا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی