پاکستان کا بھارت میں تیار ہونے والی کرونا ویکسین منگوانے کا فیصلہ

بھارت میں تیار ہونے والی برطانوی کمپنی آسترا زینیکا کی ویکسین کی درآمد کی اجازت کراچی میں قائم ادویات مہیا کرنے والی نجی کمپنی سندھ میڈیکل سٹورز کو دی گئی ہے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بھارت میں تیار ہونے والی کوئی دوائی یا ویکسین پاکستان درآمد کی جائے گی (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے ملک کا نجی شعبہ پڑوسی ملک بھارت میں تیار ہونے والی برطانوی کمپنی آسترا زینیکا کی ویکسین درآمد کرے گا۔

آسترا زینیکا کی تیار کردہ ویکسین کی درآمد کی اجازت کراچی میں قائم ادویات مہیا کرنے والی نجی کمپنی سندھ میڈیکل سٹورز (ایس ایم ایس) کو دی گئی ہے۔

ایس ایم ایس کے نمائندے محسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہم آسترا زینیکا کی ویکسین بھارت سے درآمد کریں گے۔'

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے حال ہی میں دو غیر ملکی کرونا وائرس ویکسینز کے ملک میں ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی ہے جن میں چینی ویکسین سائنوفارم اور آسترا زینیکا کی تیار کردہ ویکسین شامل ہیں۔

اسلام آباد میں ڈریپ کے میڈیا کوآرڈینیٹر اختر عباس نے کہا کہ آئندہ 24 گھنٹوں میں ایس ایم ایس کو آسترا زینیکا کی ویکسین سے متعلق باقاعدہ اجازت نامہ جاری کر دیا جائے گا، جس کے بعد نجی کمپنی ویکسین درآمد کر سکے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اختر عباس نے کہا: 'سائنوفارم اور آسترا زینیکا کی تیار کردہ ویکسین کے پاکستان میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری دی جا چکی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ ایک روسی کمپنی کی تیار کردہ کرونا وائرس ویکسین کی اجازت کی درخواست بھی موصول ہوئی ہے۔

دوسری جانب ایس ایم ایس کے نمائندے محسن نے بتایا کہ ان کی کمپنی بھارت میں ویکسینز بنانے والے ادارےسیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا میں تیار ہونے والی آسترا زینیکا کی ویکسین درآمد کرے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 'ویکسین کی قیمت کا تعین ابھی نہیں ہوا ہے، تاہم اس کی قیمت کم سے کم ہی رکھی جائے گی۔'

یاد رہے کہ بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹرا کے شہر پونا میں قائم سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا دنیا میں ویکسین بنانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے، جہاں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی منظور شدہ ویکسینز تیار کی جاتی ہیں۔

پاکستان، جو اس وقت کرونا وائرس کی دوسری لہر کا شکار ہے، میں اس وائرس کے مثبت کیسوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ اور 11 ہزار سے زیادہ اموات واقع ہو چکی ہیں، جبکہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے اموات کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔

یاد رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بھارت میں تیار ہونے والی کوئی دوائی یا ویکسین پاکستان درآمد کی جائے گی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھارت سے کم از کم 100 اشیا درآمد کرتا ہے، جن میں میں سب سے بڑا حصہ ان کیمیائی مادوں کا ہے جو یہاں ادویات بنانے والے کارخانے خام مال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

دواسازی کی صنعت میں استعمال ہونے والے خام مال کے علاوہ بھارت میں تیار ہونے والی ادویات بھی بڑی تعداد میں پاکستان پہنچتی ہیں، جو قانونی طریقوں کے علاوہ سمگلنگ کے ذریعے بھی لائی جاتی ہیں۔

پاکستان فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشن کے مطابق بھارت سے درآمد ہونے والا زیادہ خام مال زندگی بچانے والی ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے، جن میں کینسر، ٹی بی، دل کی بیماریوں اور اعضا کی پیوند کاری کے بعد استعمال ہونے والی ادویات سر فہرست ہیں، جبکہ ویکسین بنانے میں استعمال ہونے والے کئی کیمیائی مادے بھی بھارت ہی سے آتے ہیں۔

آسترا زینیکا کتنی موثر ہے؟

آسٹرا زینیکا برطانوی اور سویڈن کی مشترکہ کمپنی ہے، جس کا ہیڈکوارٹر برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں واقع ہے۔

کمپنی نے گذشتہ سال نومبر میں اعلان کیا تھا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ٹیسٹ کی جانے والی اس کی AZD1222 نامی کرونا وائرس ویکیسن نے 70 فیصد کارکردگی دکھائی ہے۔

کمپنی کے مطابق مذکورہ ویکسین کے ایک مہینے کے وقفے سے دو انجیکشن لگتے ہیں جبکہ دوسرے شاٹ میں دوائی کی مقدار آدھی رکھ کر 90 فیصد نتائج بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

آسٹرا زینیکا کی تیار کردہ ویکسین، جسے گذشتہ سال دسمبر میں برطانیہ میں منظوری حاصل ہوئی تھی، کرونا وائرس کی دوسری ویکسینوں کے مقابلے میں نسبتاً سستی اور استعمال میں آسان بتائی جاتی ہے۔

آسترا زینیکا کی ویکسین کے موثر ہونے پر خود بھارت سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں اعتراضات بھی اٹھائے گئے ہیں، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ ایمرجنسی استعمال کے لیے یہ ایک بہتر دوائی ہے۔

ڈریپ کے اختر عباس کہتے ہیں: 'ایمرجنسی استعمال کا مطلب یہی ہے کہ آپ کے پاس ویکسین کا پورا ڈیٹا موجود نہیں ہے اور ٹرائلز میں بہت زیادہ لوگوں پر اسے ٹرائی نہیں کیا گیا۔'

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ویکسین کی اجازت کے ساتھ استعمال کے تفصیلی پروٹوکولز بھی تیار کیے جاتے ہیں، جن میں تمام احتیاطیں موجود ہوتی ہیں تاکہ ممکنہ خطرات کو کم سے کم رکھا جا سکے۔

ویکسین پاکستان کب آئے گی؟

کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے دنیا کے 34 ملکوں میں ویکسین لگانے کا کام شروع ہوچکا ہے، تاہم ان ممالک میں ابھی پاکستان کا نام شامل نہیں ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے بدھ کی شام میڈیا کو بتایا کہ کرونا ویکسین سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں ہی پاکستان پہنچ جائے گی۔

دوسری طرف نجی کمپنی ایس ایم ایس کو بھی ویکسین درآمد کرنے میں کم از ایک مہینہ لگ سکتا ہے۔

ایس ایم ایس کے نمائندے محسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'ابھی چند دن پہلے ہی اجازت ملی ہے، دوائی کی درآمد میں کم از کم ایک مہینہ لگ سکتا ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کرونا وائرس کے خلاف استعمال ہونے والی ویکسین اس سال مارچ میں ہی پاکستان پہنچ پائے گی۔

ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ چینی ویکسین کینسائنو کے ملک میں استعمال کی اجازت کے امکانات بھی موجود ہیں تاہم اس کا انحصار ویکسین کے ٹرائلز کے نتائج پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کینسائنو کے ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں 17 ہزار پانچ سو افراد نے حصہ لیا اور حتمی نتائج فروری میں سامنے آئیں گے۔

ڈاکٹر فیصل سلطان نے مزید کہا کہ پاکستان سائنوفارم کی دس لاکھ اور کینسائنو کی دو کروڑ خوراکیں خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ملک میں ویکسین لگانے کا عمل سال رواں کی پہلی سہ ماہی (جنوری سے مارچ 2021 کے دوران) میں ہی شروع کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ 18 سال سے زیادہ عمر کے شہریوں کو کرونا ویکسین مفت مہیا کی جائے گی۔

ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق: 'پاکستان کی 70 فیصد آبادی کو کرونا ویکسین لگائی جائے گی، جس میں ہیلتھ ورکرز سب سے پہلی ترجیح ہوں گے، تاہم 18 سال سے کم عمر افراد کو ویکسین کی ضرورت نہیں ہو گی۔'

ڈاکٹر فیصل سلطان کا مزید کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی ویکسین لگانے کے لیے ملک میں پہلے سے موجود ادارے ای پی آئی کو استعمال میں لایا جائے گا اور اس سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت