پہلی ٹرانس جینڈر نیوز اینکر مارویہ آج کہاں ہیں؟

مارویہ ملک پاکستان کی واحد ٹرانس جینڈر تھیں جنہوں نے پاکستان میں سکرین پر آ کر ایک نئی روایت قائم کی، تاہم اب ان کے حالات بہت مختلف ہیں۔

مارویہ نے ایک مقامی چینل کے لیے نیوز اینکر کی کرسی سنبھالی تھی  مگر یہ نوکری زیادہ عرصہ نہیں چلی (اے ایف پی)

نیوز روم میں مانیٹرنگ کے لیے لگی درجنوں سکرینوں میں سے ایک کو بھاری بھرکم شیشے کا گلاس مار کر تباہ کر دیا گیا اور آنکھوں میں آنسو لیے شکایات کو پورے چینل کے سامنے دردمندانہ آواز میں بیان کرتی پاکستان کی پہلی خواجہ سرا نیوز کاسٹر مارویہ نے ماحول کو اداس کر دیا، اور ہم تمام لوگ اپنی کرسیوں پر جم کر رہ گئے۔

مارویہ ملک پاکستان کی واحد ٹرانس جینڈر تھیں جنہوں نے پاکستان میں سکرین پر آ کر دنیا میں ایک نئی روایت قائم کی اور ایک لوکل چینل کو بلندیوں کی معراج پر پہنچا دیا۔ جہاں قومی سطح کے صحافی نہیں آتے تھے وہاں عالمی چینلوں اور صحافیوں کی قطاریں لگ گئیں کیوں کہ ہر شخص اس پڑھی لکھی خواجہ سرا کا انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔

یہ بات ہے 2018 کی جب مجھے بھی بطور کورٹ رپورٹر ایک مقامی چینل نے اپنی ری لانچنگ پر بلایا اور تب ہی مارویہ ملک کو بھی آن ایئر کر کے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں اپنی ایک خاص جگہ بنائی اور عالمی سطح پر ہمدردیاں اور تعریفوں کے گلدستے سمیٹے تھے۔

اس چینل کی کہانی بھی یوں ہی تھی کہ مالکان کا پیشہ صحافت نہیں تھا بلکہ خاص کاروباری حضرات کو جب اپنے کاروبار کو محفوظ بنانے کا کوئی راستہ نہ ملا تو انہوں نے چینل کو وسیع پیمانے پر لانچ کیا اور بہت سے صحافیوں کو اس میں بلایا۔ ساتھ ہی ساتھ مارویہ ملک کی پاکستان میں بطور پہلی خواجہ سرا نیوز کاسٹر خوب تشہیر کر کے توجہ بٹوری، مگر ایک سال اور کچھ ماہ بعد ہی انہوں نے لوگوں کو یہ کہہ کہ فارغ کرنا شروع کر دیا کہ تنخواہ کے بغیر کام کرنا چاہو تو کرتے رہو۔

یہی معاملہ جب مارویہ ملک کے ساتھ پیش آیا تو ان کو اس حوالے سے نہ صرف معذرت کر کے رخصت کیا گیا بلکہ چینل کے سامنے ان کے ساتھ غیر مناسب سلوک کیا گیا اور روایتی زبان درازی کی گئی جس کی بنیاد پر مارویہ ملک نہ صرف بے ساختہ چلائیں بلکہ ایک سکرین پر اپنا غصہ بھی اتار دیا۔ مالکان کی جانب سے بہرکیف کسی طرح کر کے معاملہ ختم کر کے مارویہ کو وہاں سے رخصت کروایا گیا۔

مارویہ ملک کون ہیں؟

مارویہ ملک پہلی بار نیوز کاسٹر کے طور پر ٹی وی پر آئیں لیکن وہ شو بزنس میں نئی نہیں تھیں۔ اس سے قبل وہ ماڈلنگ بھی کر چکی تھیں اور کئی فیشن شوز میں بڑی بڑی ماڈلز کے ساتھ ماڈلنگ کر چکی تھیں۔ مارویہ ملک نے پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں گریجویشن کر رکھی ہوئی ہے۔

مارویہ کہتی ہیں کہ ان کا مقصد ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کے لیے کچھ کریں جس سے ان کے حالات بہتر ہوں۔ پاکستان میں 2018 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق ملک میں خواجہ سراؤں کی کل تعداد ساڑھے دس ہزار کے لگ بھگ ہے۔

2018  میں مارویہ ملک کا کہنا تھا: ’مجھے نیوز کاسٹر کی نوکری ملی ہے لیکن میری کہانی اور ایک خواجہ سرا کی کہانی ایک ہی ہے جو سڑک پر بھیک مانگ رہا ہے یا ڈانس کر رہا ہے۔ اس چیز کو بدلنے کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کے گھر والوں نے انہیں میٹرک تک تعلیم دلوائی اور اس کے بعد انہوں نے میرے سے تعلق ختم کر دیا۔

انہوں نے بتایا کہ گریجوئیشن تک کی تعلیم کا خرچہ خود اٹھایا ہے اور ماسٹرز کے لیے بھی خرچہ وہ خود ہی اٹھائیں گی۔

مارویہ ملک اب کہاں ہیں؟

یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل تو ہے ہی مگر اس کا جواب انتہائی دل خراش ہے۔

چینل سے نوکری ختم ہونے کے بعد مارویہ ملک نے جہاں بھی نوکری کے لیے اپلائی کیا ان کو کسی نے بھی انکار نہ کیا مگر بحیثیت قوم خواجہ سراؤں سے ٹریفک اشارے پر کھڑے یا ڈانس پارٹیوں میں جو توقع کی جاتی ہے اس کی ڈیمانڈ بھی ساتھ رکھی۔ حال ہی میں جب میں نے مارویہ سے دوبارہ خواجہ سراؤں کے ڈانس اور روایتی کاروبار میں آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے سنجیدگی سے اپنی داستان بتائی جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔

مارویہ کا کہنا تھا: ’اگر مجھے اپنے جسم اور خواجہ سراؤں سے منسوب کاموں کے عوض ہی نام نہاد عزت دار نوکری ملنی ہے وہ بھی چند ہزار کی، تو کیوں نہ میں اپنا وہی روایتی کام بغیر منافقت کے شروع کر لوں جس میں مجھے پیسہ بھی زیادہ ملے۔‘

مارویہ کا کہنا تھا: ’مجھے ہر شخص یہی کہتا ہے کہ تمہیں تو دنیا جانتی ہے تمہیں یہ سب کرنے کی عادت ہے اس لیے تم یہ کر رہی ہو جبکہ اصل معاملات کا اندازہ مجھے ہے کہ میں ایک خودمختار انسان ہوں مانگ کر کھانا یا اپنے گھر کا بل دینا میرے بس کی بات نہیں ہےْ اچھا یا برا مگر کام کر کہ اپنے بل پر میں اپنے اخراجات برداشت کرتی ہوں۔‘

یاد رہے کہ مارویہ کو حکومتی سطح پر بھی کافی پذیرائی ملی تھی جس میں وہ وزیر اعظم کے کامیاب نوجوان پروگرام کے سربراہ عثمان ڈار سے بھی ملیں۔ پی ٹی وی سپورٹس کی جانب سے کرکٹ میچوں میں بھی بطور مہمان ان کو مدعو کر کے صرف کیمروں کی حد تک دنیا کو یہ تاثر دیا گیا کہ خواجہ سراؤں کو پاکستان میں مکمل تحفظ حاصل ہے۔

دوسری طرف اصل زندگی میں مارویہ ایک مرتبہ پھر اسی روایتی گند میں جانے پر مجبور ہیں جہاں سے انہوں نے اپنی محنت تعلیم اور کاوش سے خود کو نکال کر دنیا کہ سامنے ایک قابل ٹرانسجینڈر کے طور پر پیش کیا تھا۔ انہوں نے دکھایا تھا کہ خواجہ سرا سے متعلق جو سوچ ہے وہ غلط ہے اور خواجہ سراؤں کو اگر موقع دیا جائے تو وہ مرد و خواتین سے بھی بہتر کردار ملک کی ترقی کے لیے ادا کر سکتے ہیں۔

اگر وہی کام کروں تو میں صبح ہی کسی بڑے چینل پر آن سکرین آ سکتی ہوں مگر میں یہی گند کو پیچھے چھوڑ کر اپنی لگن اور کاوش سے آگے آئی تھی لہٰذا میں یہ گندگی دوبارہ کرنے کو تیار نہیں ہوں۔

دل مایوس ہو چکا ہے

مارویہ ملک سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا: ’انتہائی مشکل ہوتا ہے جب انتی محنت کے بعد بھی آپ کو کوئی مثبت نتیجہ نہ ملے اور آپ کی محنت لگن بھی کام نہ آئے۔ تو مجبوراً وہی کام کرنا پڑتا ہے جس سے بچنے کے لیے زندگی کا ایک بڑا حصہ مشکلات برداشت کر کے گزارا ہو۔‘

جب مارویہ سے پوچھا گیا کہ کیا دوبارہ ان کو میڈیا انڈسٹری، جس سے متعلق انہوں نے تعلیم حاصل کی مشکلات برداشت کیں، میں جانے کی کوئی پیشکش آتی ہے یا آپ کی جانب سے کوئی کوشش کی جاتی ہے؟

مارویہ کا اس حوالے سے کہنا تھا: ’کالز ابھی بھی کئی جگہوں سے آتی ہیں مگر اب دل اتنا مایوس ہو چکا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ انٹرویو کہ بہانے بلا کر وہی غیر مناسب سوالات کیے جائیں گے جس کے باعث میں خود ہی انکار کر دیتی ہوں۔

’میں جانتی ہوں کہ آج بھی اگر میں میڈیا انڈسٹری میں آنا چاہوں تو میرے لیے بہت آسان ہے کہ جن کاموں کو میں پیچھے چھوڑ کر محنت کے بل بوتے پر آئی تھی وہی کام میں چینلز مالکان اور پروڈیوسرز کے ساتھ جس کی وہ ڈیمانڈ کرتے ہیں کمپرومائز کرنے کا کہتے ہیں جسم کی نیلامی کا براہ راست تذکرہ کرتے ہیں کے ساتھ شروع کر دوں۔ اگر ایسا کروں تو میں صبح ہی کسی بڑے چینل پر آن سکرین آ سکتی ہوں مگر میں یہی گند کو پیچھے چھوڑ کر اپنی لگن اور کاوش سے آگے آئی تھی لہٰذا میں یہ گندگی دوبارہ کرنے کو تیار نہیں ہوں۔‘

انہوں نے کہا: ’پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں ہے یہاں لوگوں کے نام صرف اپنے مخصوص کاموں کو پورا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت ان کو استعمال کیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ