ہم ٹرانس مین کو قبول کیوں نہیں کر سکتے؟

اسے ٹرخانے کے لیے عجیب عجیب بہانے بنائے جاتے، کبھی کہا جاتا اپنی امی کو لے کر آؤ، کبھی کہا جاتا بہن کو لے کر آؤ تو کبھی کہا جاتا چچا، تایا اور ماموں کو لے کر آؤ۔ پھر دفتر میں کام کرنے والے ایک نرم دل انسان نے ترس کھا کر اس کا شناختی کارڈ بنا دیا۔

(اے ایف پی)

آئیے۔۔ آج آپ کو رومی سے ملواتے ہیں۔ رومی کی عمر 22 سال ہے اور وہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رہتا ہے۔ رومی نے آٹھویں پاس کرنے کے بعد سکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ مزید پڑھنا چاہتا تھا لیکن کچھ وجوہات کی بناء پر نہیں پڑھ سکا۔

رومی کی پیدائش ایک عام سے گھرانے میں ہوئی تھی۔ دکھنے میں وہ لڑکی لگتا تھا پر وہ لڑکی نہیں تھا۔ رومی ٹرانس جینڈر یعنی مخنث تھا۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا رہا، اس کی اپنے بارے میں سمجھ بھی بڑھنے لگی۔ اسے روزانہ لڑکیوں کا یونیفارم پہن کر سکول جانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اسے لڑکیوں کے کھلونے اچھے نہیں لگتے تھے۔ وہ عام لڑکوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ آخر کار ایک دن اس نے لڑکیوں کی طرح رہنے سے انکار کر دیا۔ وہ ٹرانس مین تھا اور اسے اپنی زندگی اسی روپ میں گزارنی تھی، چاہے وہ کتنی بھی مشکل کیوں نہ ہو۔

رومی نے اپنے گھر والوں کو تو جیسے تیسے کر کے منا ہی لیا پر باہر والوں کا کیا کیا جائے، جو ہر انسان کو پرفیکٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس بات کا احساس اسے تب ہوا جب اس نے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ جوڑنے کے لیے کچھ اکیڈمیوں کا رخ کیا۔ اس کے پاس اکیڈمی کی فیس ادا کرنے کے پیسے بھی تھے اور وہ پڑھائی کے لیے سنجیدہ بھی تھا، اس کے باوجود کسی اکیڈمی نے اسے داخلہ نہیں دیا۔

شناختی کارڈ بنوانے کی باری آئی تو پتہ چلا وہ بھی نہیں بن سکتا کیوںکہ نادرا کے دفتر میں کام کرنے والے ملازمین رومی اور ان جیسے دیگر لوگوں کو مخنث افراد کا حصہ نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے تو مخنث افراد ایسے خواجہ سرا ہوتے ہیں جو چمکیلے کپڑے اور بھاری سا میک اپ کیے سڑکوں پر کھڑے ایک گاڑی سے دوسری گاڑی کی طرف بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ رومی تو عام آدمیوں جیسے کپڑے پہنتا ہے، نہ وہ جسم فروشی کرتا ہے اور نہ ہی بھیک مانگتا ہے۔ وہ ایک ریستوران میں کام کرتا ہے۔

نادرا کے دفتر میں کام کرنے والوں کے لیے تو وہ کوئی خلائی مخلوق تھا۔ رومی کبھی ایک کاؤنٹر پر جاتا تو کبھی دوسرے پر۔ وہ انہیں بتاتا کہ سپریم کورٹ نے مخنث افراد کے شناختی کارڈ کا مسئلہ حل کر دیا ہے، اب وہ اپنی مرضی کی جنس کے ساتھ پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کر سکتا ہے۔ رومی یہ بات سمجھتا تھا مگر وہ لوگ نہیں سمجھتے تھے۔

اسے ٹرخانے کے لیے عجیب عجیب بہانے بنائے جاتے، کبھی کہا جاتا اپنی امی کو لے کر آؤ، کبھی کہا جاتا بہن کو لے کر آؤ تو کبھی کہا جاتا چچا، تایا اور ماموں کو لے کر آؤ۔ پھر دفتر میں کام کرنے والے ایک نرم دل انسان نے ترس کھا کر اس کا شناختی کارڈ بنا دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رومی کہتا ہے کہ قانون تو تمام مخنث افراد کے لیے آیا تھا لیکن سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں بیٹھے لوگ ایک مخصوص وضع قطع کے حامل افراد کو ہی مخنث افراد سمجھتے ہیں اور رومی جیسوں کے چکر پر چکر لگواتے ہیں۔ رومی کہتا ہے کہ ٹرانس وومن نے تو متحد ہو کر حکومت اور معاشرے سے کچھ حقوق حاصل کر لیے ہیں لیکن اس جیسے لوگوں کا کیا؟ اگر وہ شور نہیں مچاتے تو کیا انہیں حقوق نہیں ملیں گے؟ کیا معاشرہ انہیں قبول نہیں کر سکتا؟

نایاب علی اقوام متحدہ کے ترقیاتی پراگرام میں بطور ٹرانس جینڈر رائٹس ایکسپرٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خواجہ سرا اصل میں ایک ثقافت ہے جس کے تحت مخنث افراد اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے بھی مخنث افراد ہیں جو اس ثقافت کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اصل مسئلہ ان کا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ معاشرے نے ٹرانس وومن کو تو کسی حد تک قبول کر لیا ہے لیکن ٹرانس مین کو قبول نہیں کیا۔

رومی سمجھتا ہے کہ ٹرانس مین کو بھی ٹرانس وومن کی طرح متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ ان کا اکٹھ دیکھ کر ہی انہیں ایک حقیقت مان سکے۔ رومی مخنث افراد کے ساتھ میل جول بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دو ہفتے قبل وہ ایک ٹرانس پرائڈ پر ناران کاغان کی سیر کو گیا تھا۔ اس ٹرانس پرائڈ کا مقصد ٹرانس جینڈر کمیونیٹی کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور انہیں کچھ دن کی تفریح مہیا کرنا تھا۔ اس پرائڈ میں تقریباً پچھتر افراد شامل تھے، ان میں سے کچھ ٹرانس وومن تھیں اور کچھ خواجہ سرا تھے، جبکہ ٹرانس مین صرف دو تھے، ایک رومی اور دوسرے ان کے دوست۔ رومی کو لگتا ہے کہ ایسے پروگرام مخنث افراد کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے بہت ضروری ہیں لیکن فی الحال ان میں ٹرانس مین کی شمولیت بہت کم ہے۔

رومی کہتا ہے کہ اس معاشرے نے ٹرانس مین کو صرف ایک آزادی دی ہے: اپنا نام خود چننے کی آزادی۔ رومی کو اپنی پیدائش کے وقت جو نام ملا تھا، وہ لڑکی کا نام تھا۔ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے انہوں نے اپنا نام خود چنا۔ اس بلاگ کے لیے بھی رومی نے اپنا نام خود ہی چنا۔ یہ انہیں میسر واحد آزادی ہے جو شائد ہم ایسے ’نارمل اور مکمل‘ انسانوں کو حاصل نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ