کراچی ٹیسٹ پچ کیسی بنائی جائے، فیصلہ نہ ہو سکا

موجودہ صورتحال میں بھی مصباح اینڈ کمپنی شاید ایسا ہی سوچ رہی ہے کہ کراچی میں بیٹنگ وکٹ بنادی جائے جس سے شکست کو روکا جاسکے ۔

(اے ایف پی)

26 جنوری سے کراچی میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کے درمیان پہلا ٹیسٹ شروع ہورہا ہے۔  نیوزی لینڈ کے گزشتہ دورے میں شرمناک شکست نے ٹیم مینیجمنٹ کا مستقبل ڈگمگا دیا ہے اور جنوبی افریقہ کے ساتھ دو ٹیسٹ میچز پر مبنی سیریز سخت امتحان بن گئی ہے، جس سے موجودہ مینیجمنٹ کی مزید وابستگی کا  فیصلہ ہوگا۔

دوسرے الفاظ میں یہ سیریز ٹیسٹ کیس ہے۔

میڈیا اور کرکٹ تبصرہ نگار طویل عرصہ سے مصباح الحق کو کوچنگ سے ہٹانے کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ ان کی کوچنگ میں یکے بعد دیگرے تین سیریز میں شکست نے ان کی اہلیت اور قابلیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔

پاکستان کرکٹ کے ماضی کو دیکھا جائے تو جب بھی ٹیم ہارنے لگتی ہے تو سپورٹنگ وکٹ کے بجائے  بیٹنگ وکٹ بنادی جاتی ہیں تاکہ بلے باز رنز کا انبار لگادیں اور میچ تھک ہار کر ڈرا ہوجائے۔

ایسی پچ بنائی جاتی ہے جس پر فاسٹ بولرز کو باؤنس  ملتا ہے اور نہ گھاس کی مدد۔ ایسے میں گیند فٹ بال کی طرح بلے بازوں کو نظر آتی ہے اور دونوں ٹیمیں دو سے تین دن کھیل کر بڑے سکور بنا دیتی ہیں اور میچ ہارجیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوجاتا ہے۔

یہ وہ آسان نسخہ ہے جس سے بہت سے بلے باز اپنے کرئیر کے ڈوبتے ہوئے سورج کو پھر سے طلوع کرلیتے ہیں اور ٹیم کے کھاتے میں شکستوں کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔

موجودہ صورتحال میں بھی مصباح اینڈ کمپنی شاید ایسا ہی سوچ رہی ہے کہ کراچی میں بیٹنگ وکٹ بنادی جائے جس سے شکست کو روکا جاسکے ۔

نیشنل سٹیڈیم میں ٹیسٹ کے لیے چار پچز تیار کی گئی ہیں جن میں سے ایک پر میچ کھیلا جائے گا لیکن چاروں پچز پر سے گھاس بالکل ختم کردی گئی ہے۔ ایک فلیٹ اور سپاٹ وکٹ جس پر بلے بازوں کو ایڈوانٹیج ہوگا لیکن مینیجمنٹ یہ بھی سوچ رہی ہے کہ وکٹ کچھ نرم رکھی جائے تاکہ سپن بولرز کو ٹرن مل سکے ۔

ایک بھرپور سپن وکٹ شاید بڑا رسک ہو کیونکہ یاسر شاہ ایک تیز سپنر ہیں اس لیے ان کو تو مخصوص وکٹ نہیں چاہیے دوسرےسپنر ساجد خان کو کھلائے جانے کا امکان ہے جو آف سپنر ہیں اور ورائٹی کے بجائے لینتھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جبکہ وہ ’دوسرا‘ بھی نہیں کرتے ہیں اس لیے انھیں بھی دوسرے سپنر کی نسبت کم مدد ملنے کا امکان ہے ۔

وکٹ کیسی بنائی جائے

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے لیے مینیجمنٹ نے سر جوڑ لیے ہیں، مدد کے لیے مزید کوچز ثقلین مشتاق اور محمد یوسف کو بھی طلب کرلیا ہے تاکہ موزوں وکٹ بنائی جاسکے۔ حالانکہ کوچز کے ہجوم نے کوچنگ کو مزید مشکل بنادیا ہے جس کا گلہ بیٹنگ کوچ یونس خان دبے الفاظ میں کرچکے ہیں ۔

پاکستان اگر سپن وکٹ بناکر جنوبی افریقہ کو جال میں پھنسانا چاہتا ہے تو بہتر ہوگا کہ نعمان علی یا محمد نواز کو کھلایا جائے کیونکہ بیٹنگ وکٹ آخری دو دن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونےکے بعد لیفٹ آرم سپنرز کے لیے بہت مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ یہ دونوں سپنرز بہت موثر ثابت ہوں گے۔

کراچی میں جنوری کے موسم میں چونکہ سورج میں زیادہ تیزی نہیں ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے ریورس سوئنگ نہ مل سکے جس کےلیے کاگیسو ربادا بے چین ہیں اور بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں انھیں ریورس سوئنگ مل سکتی ہے ۔

جبکہ ریورس سوئنگ کا مکمل دارومدار گیند کی حالت اور دھوپ کی تیزی پر منحصر ہے ۔

گیند پر لعاب دہن لگانے کی پابندی نے بھی گیند کو ایک طرف سے چمکانے کا سلسلہ موقوف کردیا ہے جو ریورس سوئنگ کا بنیادی جزہے ۔

پچ نے اگر دھوکہ دے دیا ؟

ماضی میں کئی دفعہ ایسا ہوا کہ سپنرز کی مدد کے لیے وکٹ بنائی گئی مگر سپنرز کے بجائے فاسٹ بولرز فائیدہ اٹھا گئے جیسے 2007 میں کراچی میں جنوبی افریقہ کے خلاف پچ نے سپنرز کو مدد تو نہیں دی مگر پہلے جیک کیلس نے شاندار سنچریاں بنائیں اور پھرآخری دن ڈیل سٹین نے تباہی مچادی اور پاکستان ٹیسٹ ہار گیا ۔

یہی وہ خوف ہے جس کا سامنا ٹیم مینیجمنٹ کو ہے کیونکہ جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستان سے زیادہ تجربہ کار بھی ہے اورباصلاحیت بھی۔

بیٹنگ میں ڈین ایلگر، مارکم فاف ڈوپلیسی اور کوئینٹن ڈی کوک اگر ہیں تو بولنگ میں ربادا۔ نورٹئے اور پریٹوریس ہیں۔ جب کہ پاکستان اس سیریز میں کئی نوجوان کھلاڑیوں کو پہلی دفعہ کھلانے جارہا ہے ۔

شکستوں سے نڈھال مصباح الحق بھی اس صورتحال میں نروس دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اختیارات بھی کم کردئیے گئے ہیں۔ کپتان بابر اعظم کو ٹیم سیلیکشن کے کلی اختیارات دے دئیے گئے ہیں جس سے مصباح قطعی ناخوش نظر آتے ہیں اسی لیے وہ ایک دفاعی حکمت عملی سے ایک محفوظ سیریز کھیلنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنوبی افریقہ کے کپتان ڈی کوک کہہ چکے ہیں کہ وہ اور ان کی ٹیم کسی بھی قسم کی پچ پر کھیلنے کے لیے تیار ہے انھیں بھی اندازہ ہے کہ پچ کسی بھی طور پر فاسٹ ٹریک نہیں ہوگی اس لیے جنوبی افریقہ کی ٹیم  سپنرز کو تیار کررہی  ہے۔

اگرچہ ان کےسپنرز اتنے تجربہ کار نہیں ہیں لیکن ان کا فاسٹ بولنگ اٹیک پوری طرح پشت پر کھڑا ہے جس سے سپنرز کو تقویت مل رہی ہے ۔

کراچی ٹیسٹ کی پچ کیسی ہوگی اس کا پتہ تو ٹیسٹ شروع ہونے کے بعد ہی چل سکے گا، لیکن یہ بات واضح ہے کہ مینیجمنٹ ابھی تک پچ کی نوعیت پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے جس سے کھلاڑیوں اور مینیجمنٹ میں اعتماد کا فقدان نظرآرہا ہے، جس کا نتیجہ ناموافق نکل سکتا ہے ۔

ایک کمزور اور دفاعی سوچ ہی وہ عنصر ہے جس کے باعث پاکستان نے پچھلی تین سیریز ہاری ہیں ۔

پاکستان کو جنوبی افریقہ سے پہلے اس منفی سوچ سے لڑنا ہوگا اور خود کو میسر ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں مضبوط حریف ثابت کرنا ہوگا ۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ