بلوچستان: صوبہ وسائل سے مالامال مگر عوام بدحال

پاکستان کا سب سے بڑا گیس کا ذخیرہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں موجود ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان کے چپے چپے میں گیس پہنچا دی گئی ہے لیکن جہاں سے یہ گیس نکلتی ہے وہاں اب تک میسر نہیں۔

گوادر کے منصوبے ابھی تک امکانات کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا نام صوبہ بلوچستان۔ بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ جس کی سرزمین میں معدنیات کی کمی نہیں ہے قدرت نے اس سرزمین کو سونا، چاندی، گیس، تیل، پیڑول، ڈیزل، کوئلہ و دیگر معدنیات سے نوازا ہے۔

لیکن اس کے باوجود یہاں کے عوام غربت و کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔

گوادر کو سی پیک کا جھومر کہا جاتا ہے۔ ہر طرف گوادر ہی گوادر۔ لیکن گوادر کے عوام کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں، اس کا اندازہ کوئی لگا نہیں سکتا۔ میڈیا میں ہم گوادر کی تعریف تو سن سن کر تھک گئے ہیں کہ گوادر دبئی یا سنگاپور بننے جا رہا ہے،‘ یہ روز سننے میں آ رہا ہے، لیکن گوادر کے عوام کو صاف پانی پینے کے لیے میسر نہیں ہے۔

صرف گوادر تک محدود نہیں، یہ مسئلہ پورے بلوچستان میں ہے اور ہماری مائیں اوربہنیں پانی کے لیے کئی میل سفر طے کرتی ہیں۔ لوڈشیڈنگ 20 '20گھنٹے ہوتی ہے' بجلی بالخصوص مکران میں اتنی زیادہ ہے کہ پورےمکران میں 24 گھنٹےبجلی دی جائے تب بھی بجلی کی کمی نہیں ہو گی۔

پاکستان کا سب سے بڑا گیس کا ذخیرہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں موجود ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان کے چپے چپے میں گیس پہنچا دی گئی ہے لیکن جہاں سے یہ گیس نکلتی ہے وہاں اب تک میسر نہیں۔

بلوچستان میں ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور دوائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر کسی کو ایک چھوٹی سی بیماری ہو تو اسے کراچی جانا پڑتا ہے کیونکہ یہاں تو ہسپتال نام ہی چیز ہی نہیں ہے۔ اگر کسی کو کوئی پیچیدہ بیماری ہوتی ہے تو اسے کراچی جانا پڑتا ہے، جس پر ہزاروں کے خرچے کے علاوہ تکلیف الگ ہے۔ بلوچستان کے ہسپتالوں میں سالانہ کا بجٹ تو کروڑوں روپے بنتا ہے، لیکن معلوم نہیں یہ کہاں خرچ ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تعلیم قوموں کی ترقی میں اہم کردار اداکرتی ے۔ جن قوموں نے آج ترقی کی ہے تو اس کا راز تعلیم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں تعلیم کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ بلوچستان کے بیشتر سکولوں میں کلاس روم اور اساتذہ کی قلت ہے۔ کچھ ایسے سکول بھی جہاں طالب علموں کی تعداد 500 سے زیادہ ہے لیکن استاد ایک ہے۔

کچھ ایسے استاد بھی ہیں جو اب ریٹائرڈ ہونے کے قریب ہیں لیکن انہوں نے اب تک ڈیوٹی ہی نہیں دی ہے۔ بلوچستان کے بچوں کو پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سہولیات نہ ہونے کے باعث تعلیم سے محروم ہیں۔

آج کے دور میں انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے کام ہو رہے ہیں اور طلبہ کے لیے تو یہ اس کا استعمال ناگزیر ہے۔ بلوچستان کے بیشتر شہروں میں فور جی تو دور کی بات ہے، تھری جی تک کی سہولت میسر نہیں۔ بلوچستان کے دوسرے بڑےشہر تربت میں تین سال سے زائد عرصے سے فور جی معطل ہے، لیکن آج تک کسی کو نہیں پتہ کہ اسے کیوں معطل کیا گیا ہے۔

جب بلوچستان کے علاقے چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کیے گئے جس کے باعث کئی بیماریوں نے جنم لیا۔ اس ایٹمی دھماکے کے بعد کینسر جیسی خطرناک بیماری نے بھی جنم لیا۔ بلوچستان کے عوام کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں کینسر ہسپتال چاہیے لیکن بیڈ گورنس اور استحصال کے کینسر سے نجات ملے تو حکمران اس طرف توجہ کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ