خلائی تنازعات نمٹانے کے لیے دبئی میں ’خلائی عدالت‘ قائم

خلا میں پیش آنے والے تنازعات سے نمٹنے کے لیے دبئی میں ’سپیس کورٹ‘ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

 یاد رہے متحدہ عرب امارات مریخ پر تحقیقی مشن بھی روانہ کر رہا ہے تاکہ اس شعبے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کیا جا سکے۔(اے ایف پی)

سوموار کو دبئی میں ایک ’سپیس کورٹ‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے جس کا مقصد کاروباری تنازعات کو نمٹانا ہے۔

 یاد رہے متحدہ عرب امارات مریخ پر تحقیقی مشن بھی روانہ کر رہا ہے تاکہ اس شعبے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کیا جا سکے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ عدالت دبئی میں دبئی انٹرنیشنل فنانشل سینٹر کورٹس میں قائم کی جائے گی جو آزاد برطانوی مصالحتی سینٹر سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہیں۔

خلائی قوانین میں بین الااقوامی کنوینشنز اور قراردادوں، اقوام متحدہ کی آؤٹر سپیس ٹریٹی جو 1967 میں لاگو کی گئی تھی پر عمل کیا جاتا ہے۔ کئی ممالک نے اپنی خلائی سرگرمیوں کا نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے دو طرفہ اور کثیرالملکی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ابھی تک یہ معاملہ ملکوں اور اداروں تک محدود تھا لیکن اب خلا میں نجی کمپنیوں کے لیے ایک کاروباری معاملہ بن چکا ہے۔

ڈی آئی ایف سی کے چیف جسٹس ذکی اعظمی نے ایک بیان میں کہا: ’اشتراک پر مبنی ایک خلائی صنعت پر کام کیا جا رہا ہے جس کو انسانی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور سائنسی ریسرچ کی معاونت حاصل ہو گی۔ خلائی عدالت ایک عالمی اقدام ہے جو مساوی طور پر کام کرتے ہوئے 21ویں صدی میں ہونے والی خلائی تحقیق میں عدالتی معاونت کا ایک نیٹ ورک فراہم کرے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


سال 2004 میں قائم کی جانے والی ڈی آئی ایف سی عدالتوں نے پہلے ہی کئی غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان کمرشل تنازعات کے حل کرنے میں مفاہمتی کردار ادا کیا ہے لیکن ابھی تک یہ عدالت خلا میں نجی کمپنیوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے مہارت حاصل نہیں کر سکی۔

اعظمی کا کہنا ہے کہ ’خلائی تجارت مزید بین الااقوامی حیثیت حاصل کر چکی ہے اور یہ پیچیدہ کاروباری معاہدوں کے تحت ہو رہا ہے۔ اس لیے یہاں امن قائم رکھنے کے لیے ایک جدید عدالتی نظام کی ضرورت ہے۔‘

متحدہ عرب امارات نے حالیہ برسوں میں خلائی شعبے پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔

متحدہ عرب امارات سال 2019 میں مریخ کے لیے ’ہوپ‘ نامی ایک مشن بھی روانہ کر چکا ہے جو اگلے ہفتے اپنی منزل تک پہنچے گا۔

ڈی آئی ایف سی کی چیف رجسٹرار آمنہ الاویس کا کہنا ہے: ’یہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا کہ ہمیں متحدہ عرب امارات کے لیے درست انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ ہم عدالت کے افعال کے لیے ضوابط طے کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ان کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہو گی۔‘

انہوں نے خلا میں بھیجے جانے والے سیٹلائٹس اور سامان کی خریدراری پر ہونے والے اختلافات کی مثال بھی دی۔

متحدہ عرب امارات اور دنیا بھر میں موجود کمپنیاں اپنے مسائل کے حل کے لیے اس ٹریبونل سے رجوع کر سکتی ہیں اس کے علاوہ تنازعات کے حل کے لیے ’سپیس کورٹ‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا