بچوں کے ذریعے چوری کے نئے طریقہ واردات کا انکشاف

لاہور میں پولیس کو چوری کی ایک واردات میں سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے معلوم ہوا کہ کس طرح ایک چار رکنی گینگ گاڑی سے قیمتی اشیا چرانے کے لیے بچے کو استعمال کر کے باآسانی فرار ہو گیا۔

پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور میں پولیس کو چوری کی ایک واردات میں سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے معلوم ہوا کہ کس طرح ایک چار رکنی گینگ واردات میں بچے کو استعمال کر کے باآسانی فرار ہو گیا۔

گلبرک کے ایک شاپنگ سینٹر کے باہر گاڑی میں چوری کی واردات سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہوگئی۔ فوٹیج میں نظر آتا ہے کہ ایک فیملی نے سڑک کنارے گاڑی پارک کی اور خریداری کے لیے مرد اور خاتون دکان کے اندر چلے گئے، جس کے بعد ایک آٹھ، دس سالہ بچہ گاڑی کے قریب آتا ہے اور جائزہ لینے کے بعد فرنٹ دروازہ کھولتا ہے اور توجہ اپنی طرف مبذول کراتا ہے تاکہ پیچھے کھڑا شخص گاڑی کا دوسری طرف کا دروازہ کھول کراندر سے قیمتی سامان اٹھا سکے۔

اس شخص نے دوسری طرف سے گاڑی کے اندر موجود خاتون کے بیگ سے لاکھوں روپے مالیت کے زیورات، ملکی وغیر ملکی کرنسی اٹھائی اور پیچھے کھڑے تین دیگر ساتھیوں اور بچے سمیت رکشے پر فرار ہو گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس تھانہ گلبرک کے افسر وسیم اختر نے بتایا کہ واردات میں ملزمان نے بچے کو استعمال کرتے ہوئے بڑی صفائی سے چوری کی۔ انہوں نے کہا کہ واردات کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے، ’جلد ہی گروہ کو قابو کر لیں گے۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ بظاہر لگتا ہے کہ یہ چوروں کا گروہ بچے کی مدد سے وارداتیں کرتا ہے لیکن ان کے بارے میں حتمی رائے گرفتاری کے بعد دی جا سکتی ہے۔

مدعی مقدمہ عبدالمجتبی کے مطابق وہ گذشتہ شام اپنی اہلیہ کے ساتھ ضروری سامان خریدنے مارکیٹ گئے اور گاڑی سڑک کنارے پارک کر دی، کچھ دیر بعد واپس آئے تو گاڑی کے لاک کھلے تھے۔ ’ہم نے سوچا شاید لاک کھلے رہ گئے لیکن جب بیگ کھولا تو اس میں 11 تولے سونے کے زیورات اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب ملکی و غیر ملکی کرنسی غائب تھی۔‘

مدعی کے مطابق انہیں مجموعی طور پر 13 سے14 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔

چور بچوں کا استعمال کیوں کرنے لگے؟

فوجداری مقدمات کے وکیل حفیظ الرحمٰن چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جوونائل ایکٹ کے تحت نابالغ بچوں کو قانون میں رعایت دی گئی ہے، انہیں سزا بھی کم ہوتی ہے اور ضمانت بھی جلدی ہوجاتی ہے۔

’چوری اور ڈکیٹی کی وارداتوں میں اکثر خواتین اور بچوں کو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ ایک تو وارادات کے وقت ان پر شبہ کم ہوتا ہے اور وہ باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، دوسرا یہ کہ اگر پکڑے بھی جائیں تو بچوں اور عورتوں کے لیے قانون میں زیادہ سختی نہیں ہوتی۔‘

انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی ماہ سے ایسی وارداتیں دیکھنے میں آرہی ہیں جن میں گھروں اور گاڑیوں سے زیادہ تر قیمتی سامان چوری کرنے میں بچوں اورخواتین کو استعمال کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان