عالمی عدالت کا ’اہم‘ فیصلہ، فلسطین کے لیے ’انصاف کی فتح‘

عالمی فوجداری عدالت یا انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (آئی سی سی)  نے جمعے کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر بھی دائرہ اختیار حاصل ہے جس کے بعد عالمی ٹریبونل کے لیے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ 

فلسطین عالمی عدالت کا رکن ہے جس نے 2015 میں اس میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن اسرائیل اس کا ممبر نہیں ہے (اے ایف پی)

عالمی فوجداری عدالت یا انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (آئی سی سی)  نے جمعے کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر بھی دائرہ اختیار حاصل ہے جس کے بعد عالمی ٹریبونل کے لیے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آئی سی سی پراسیکیوٹر فتوؤ بینسودا نے عالمی عدالت سے قانونی رائے طلب کی تھی کہ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں یا نہیں کیوں کہ انہوں نے دسمبر 2019 میں اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ان علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی مکمل تحقیقات کا آغاز کرنا چاہتی ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے آئی سی سی کے اس فیصلے کے بعد اسے ایک ’سیاسی ادارہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے جب کہ امریکہ نے کہا ہے کہ اس فیصلے پر اسے ’شدید تحفظات‘ ہیں۔

دوسری جانب فلسطینیوں نے عالمی عدالت کے اس فیصلے کو ’انصاف کی فتح‘ قرار دیا ہے۔

آئی سی سی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ججز کی اکثریت سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عدالت کو 1967 کے بعد سے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں یعنی غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس سمیت فلسطین کی صورت حال پر فیصلہ کرنے دائرہ اختیار حاصل ہے۔‘

فلسطین عالمی عدالت کا رکن ہے جس نے 2015 میں اس میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن اسرائیل اس کا ممبر نہیں ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ اس کا فیصلہ فلسطین کو بطور ’ریاست‘ تسلیم کرنے کے بارے میں نہیں بلکہ یہ آئی سی سی کے بنیادی قانون کے تحت  فلسطین کی پوزیشن کو بطور ریاستی فریق کی حیثیت سے ہی دیکھتی ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا: ’یہ عدالت بین الاقوامی قانون کے تحت نہ تو کسی سرحدی تنازع کا فیصلہ کر رہی ہے اور نہ ہی مستقبل کی سرحدوں کے بارے میں اس کا کوئی تعلق ہے۔‘

آئی سی سی کی پراسیکیوٹر بینسودا نے پانچ سال کی ابتدائی تحقیقات کے بعد دسمبر میں مبینہ جنگی جرائم کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وہ اس عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتی ہیں اور ان کا آئندہ کا اقدام آزاد اور غیر جانبدارانہ مینڈیٹ کے مطابق ہو گا۔‘

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے گذشتہ سال ستمبر میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی پراسیکیوٹر اور آئی سی سی کے ایک اور سینیئر عہدیدار پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

بینسودا نے اس سے قبل امریکی فوجی اہلکاروں کی جانب سے افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد امریکہ، جو آئی سی سی کا ممبر نہیں ہے، نے ان پر امریکہ داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے عالمی عدالت کے اس فیصلے پر سختی تنقید کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا: ’ٹریبونل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ عدالتی ادارہ نہیں بلکہ ایک سیاسی ادارہ ہے۔ اس فیصلے نے دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع کے جمہوری حق کو پامال کیا ہے۔‘

ایک اور اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ یہ فیصلہ ’کارآمد ثابت نہیں ہوگا‘ کیونکہ خطے میں ’تبدیلی کی ہوا‘ چل رہی ہے۔

اسرائیلی عہدیدار نے کہا: ’یہ فیصلہ نہ عدالت کے لیے اچھا ہے، نہ اسرائیل کے لیے اچھا ہے اور نہ ہی خطے کے لیے اچھا ہے۔‘

فلسطینی وزیر اعظم محمد شتاحی نے غزہ کی پٹی میں 2014 میں ہونے والی جنگ کی تحقیق، فلسطینی قیدیوں اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاریوں کی توسیع کے معاملے پر آئی سی سی سے قانونی کارروائی تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ ’آئی سی سی کا یہ فیصلہ انصاف، انسانیت، حق اور انصاف، آزادی کی اقدار اور متاثرین اور ان کے خاندانوں کی فتح ہے۔‘

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے کہا کہ یہ فیصلہ ’اہم‘ ہے۔ تنظیم نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل یا فلسطینیوں کی جانب سے کی گئیں زیادتیوں کے مرتکب افراد کو انصاف کا سامنا کرنا چاہیے۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کو عدالت کا پابند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ اس کا ممبر نہیں تھا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا: ’اسرائیلی اہلکاروں پر دائرہ اختیار استعمال کرنے کی آئی سی سی کی کوششوں پر ہمیں شدید خدشات ہیں۔ ہم نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت کا دائرہ اختیار ان ممالک کے لیے ہونا چاہیے جو اس کے ارکان ہوں یا جن کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حوالہ دیا ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا