اگر جمہوریت برقرار رہتی تو سیاست میں پیسہ نہ چلتا: جسٹس اعجاز الحسن

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کےدوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئین بنانے والوں کو سینٹ الیکشن کا معلوم نہیں تھا؟ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اوپن ووٹنگ کی فروخت آج ہے پہلے نہیں تھی۔

(ویب سائٹ ۔سپریم کورٹ آف پاکستان)

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کےدوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئین بنانے والوں کو سینٹ الیکشن کا معلوم نہیں تھا؟ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اوپن ووٹنگ کی فروخت آج ہے پہلے نہیں تھی، 1973 میں  تو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ لوگ نوٹوں کے بیگ بھر کر لائیں گے۔
اٹارنی جنرل کی اس دلیل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صورتحال اتنی بھی سادہ نہیں ہے جتنی آپ کہہ رہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا۔

جمعرات کے روز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نوٹوں کے تھیلوں کے استعمال پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کرے، اگر آئین بنانے والوں کو یہ علم ہوتا کہ 2021 میں نوٹوں کے تھیلوں کی تصاویرسامنے آئیں گی تو اسی وقت پابندی لگا دیتے۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لوگ پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں یا اس کے منشور کو؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ زیادہ لوگ لیڈرز کی طلسماتی شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں، قائداعظم کی شخصیت سے متاثر ہو کر لوگ انہیں ووٹ دیتے تھے، اصولی طور پر پارٹی اور منشور دونوں کو ووٹ ملنا چاہیے۔ 

قائداعظم کا حوالہ سننے کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ تحریک انصاف کے ساتھ قابل ذکرچیز کیا ہے؟ کیا بہترین شخصیت اور خوش لباسی پر لوگوں نے ووٹ دیا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اندرا گاندھی نے آئین توڑا تو لوگوں نے اسے مسترد کر دیا۔ لوگ انتحابات میں پوچھتے ہیں کتنے وعدے پورا کیے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ پارٹی منشور کو شائع کرنا قانونی طور پر ضروری بھی ہے۔ 

اٹارنی جنرل کہا کہ یہ بات ہو رہی ہے کہ سینیٹ انتخابات اگر اوپن بیلٹ سے ہوں گے تو چئیرمین سینیٹ کے بھی ایسے ہی ہوں لیکن چئیرمین سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے۔ اگر چئیرمین سینیٹ کا انتخاب اوپن بیلٹ سے کرانا ہو تو اُس کے لیے آئینی ترمیم درکار ہو گی۔ 

اٹارنی جنرل نے بھارتی سینیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دلائل دیے کہ بھارت میں چئیرمین سینیٹ نائب صدرہوتا ہے اور اس کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوتا ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آئین میں تو سیاسی جماعتوں کا بھی ذکر ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ قانون کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ آئین میں ذکر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں آئین کے تحت بنیں۔ اٹارنی جنرل جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتحابات کا طریقہ کار رولز میں ہے کیا، سپیکر کا الیکشن آئین کے بجائے رولز کے تحت ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتحابات الیکشن کمیشن نہیں کراتا۔ اس لیےعدالت قرار دے کہ چیرمین سینٹ کا الیکشن آئین کے تحت نہیں ہوتا۔ چئیرمین سینٹ کے الیکشن پرعدالتی رائے آئی تو اوپن بیلٹ سے کروا دیں گے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بیگ بھر بھر کے لے جائے جائیں۔ سپریم کورٹ نے بنک، یوٹیلٹی بلز نادہندگان کو نااہل کیا۔ جعلی ڈگریوں اور دوہری شہریت کےجھوٹے بیان حلفی پر بھی ارکان کو نااہل کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غلط بیان حلفی تو بذات خود ایک جرم ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے سوال کیا کہ جو پارٹی کے خلاف ووٹ دے، کیا آپ انہیں بد دیانت کہہ سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ میں کسی کو دیانت دار یا بددیانت کیسے قرار دے سکتا ہوں۔ میرا موقف ہے کہ اگر اختلاف کرنا ہے تو جرات ہونی چاہیے، کھلے عام مخالفت کریں چاہے ووٹنگ سیکرٹ بیلٹ سے ہی کیوں نہ ہو۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ کل جب دوسری حکومت آئے تو کیا وہ اوپن بیلٹ کودوبارہ خفیہ کر سکتی ہے یا نہیں؟ لیکن اگر ایسا کیا گیا تو سپریم کورٹ موجود ہے۔ 

سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ پیپرز کے ذریعے کرانے سے متعلق حکومتی ریفرنس پرسماعت کل تک ملتوی کردی۔

اٹارنی جنرل عدالت سے کہا کہ میں کل تک اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔ رضا ربانی کی انفرادی درخواست ہے اس معاملے پر، انہوں نے کہا کہ وہ پیر کو دلائل دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن، پرائیویٹ وکلا اور صوبائی حکومتوں کے وکلا کو بھی سنیں گے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان