آپ میرے کپڑے نہ خریدیں بیٹی کو پڑھا لیں: فیشن ڈیزائنرعلی ذیشان

جہیز کے خلاف بنائی گئی علی ذیشان کی شارٹ فلم پر جہاں انہیں سراہا گیا، وہیں تنقید بھی کی گئی کہ اتنے مہنگے عروسی ملبوسات بنانے والا ڈیزائنر کس طرح یہ بات کر سکتا ہے۔

’بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ اتنے مہنگے کپڑے بیچتے ہیں تو آپ اس بارے میں کیوں بات کر رہے ہیں؟ یہ دو بہت مختلف باتیں ہیں، وہ میرا کاروبار ہے، اور کسی کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہے۔‘

’اگر آپ میرے کپڑے خرید سکتے ہیں تو شوق سے لیجیے۔ اگرنہیں تو خود کو کسی دباؤ میں نہ لائیں۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کوئی میرے کپڑے خریدے یا بیٹی کو پڑھائے تو میں کہوں گا بیٹی کو پڑھائیں، میں اپنے کپڑے بیچ لوں گا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کے دوران ان خیالات کا اظہار فیشن ڈیزائنر علی ذیشان نے کیا، جن کی جہیز کے خلاف بنائی گئی شارٹ فلم سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو پر جہاں انہیں سراہا گیا، وہیں ان پر اس حوالے سے بھی تنقید کی گئی کہ اتنے مہنگے عروسی ملبوسات بنانے والا ڈیزائنر کس طرح یہ بات کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ علی ذیشان یونائیٹڈ نیشن ویمن پاکستان کے ساتھ جہیز کے خلاف ایک مہم کا حصہ ہیں۔ گذشتہ ہفتے ہونے والے ’ہم برائیڈل کوتیور ویک 2021‘ میں علی ذیشان کے کپڑوں کی نمائش کا موضوع بھی یہی تھا۔ جہاں ریمپ پر دیگر ماڈلز نے ان کے عروسی جوڑے پہن کر کیٹ واک کی، وہیں انہوں نے ایک چھوٹی عمر کی لڑکی کے ساتھ ایک دلہا کی کیٹ واک بھی کروائی۔

اس واک میں دلہا اپنے ساتھ ایک ریڑھی گھسیٹ رہا ہے، جس پر جہیز کا سامان لدا ہوا ہے۔

لیکن اس کے علاوہ بھی علی ذیشان کی شارٹ فلم ’نمائش قبول نہیں‘ سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہوئی۔ اس فلم کے حوالے سے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب میں یہ تھیم اپنے ذہن میں سوچ رہا تھا تو میں صرف لڑکی والوں کی جدوجہد کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ جہیز والے سین میں ماں باپ پر زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔‘

علی ذیشان نے ایک قصہ بھی سنایا، جس کی وجہ سے ان کے ذہن میں جہیز کے خلاف مہم چلانے کا خیال آیا۔ انہوں نے بتایا: ’ہم نے گھر کے کاموں کے لیے ایک خاتون کو رکھا۔ انہوں نے مجھے اپنے گاؤں کی ایک ویڈیو دکھائی، جہاں ایک گھر کے بڑے سے صحن میں جہیز کے پورے سامان کی نمائش لگائی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ان کی بہن کی بیٹی ہے جس کے لیے انہوں نے یہ جہیز اکٹھا کیا ہے اور یہ ان کی بہن کی 20 سال کی کمائی ہے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ بیٹی کو پڑھایا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ نہیں پڑھایا۔ یہ میرے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔‘

علی کہتے ہیں: ’اب شاید لوگ یہ کہیں گے کہ ایک خاص طرح کا طبقہ یہ کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ گذشتہ برس میرے ایک کلائنٹ کی شادی ٹوٹ گئی جس میں لڑکے والوں کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ لڑکے کی شیونگ کٹ پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہو۔ اسی طرح میرے پاس ایک اچھی فیملی آئی تو وہ فون پر بات کر رہے تھے کہ لڑکے کے کمرے میں لکڑی کا فرش لگوانا ہے اور اسی طرح دیگر چیزوں کا بھی ذکر کیا۔ تو یہ چیز ہر طبقے میں ہے۔ جو امیر لوگ ہیں ان کا جہیز ان کے حساب سے بڑا ہوتا ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ جہیز سے زیادہ ضروری لڑکی کی تعلیم ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میری اپنی شادی ایک سال قبل ہوئی اور ہمارے دونوں خاندانوں میں کسی شے کا تبادلہ نہیں ہوا۔ میری بیگم میرے گھر آ گئیں۔ ہاں وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور میرے لیے اس سے بڑا تحفہ کوئی نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ اب نہ صرف مجھے میرے بزنس میں مدد کر رہی ہیں بلکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ان کی تعلیم اور اس سے ان میں پیدا ہونے والا شعور میری اگلی نسلوں تک منتقل ہوگا۔‘

بقول علی ذیشان: ’مجھے فیشن کے شعبے میں دس برس ہو چکے۔ میں ایک آرٹسٹ ہوں۔ ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے میں اس سے نظر نہیں چرا سکتا اور اس کا اثر میرے کام پر ہوتا ہے۔ ایک سنگر اپنا گانا گانے کے لیے سٹیج استعمال کرتا ہے، اسی طرح میں نے فیشن شو کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔ میں نے اپنا پیغام اس طرح سے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی۔‘

ان کا کہنا تھا: ’یہ میرے دل کی آواز ہے۔ یہ کوئی مارکیٹنگ گمک نہیں تھا۔ مجھے مارکیٹنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اسے محسوس کیا اور میں چاہتا تھا کہ لوگ بھی ایک مرتبہ اس درد کو محسوس کر کے دیکھیں اور اس سے کم از کم بات تو شروع ہوگی، ایک ڈائیلاگ تو شروع ہوگا۔ دوسرا لڑکے والوں کو بھی تھوڑی شرمندگی ہوگی مطالبہ کرتے ہوئے کہ باہر کوئی ہے جو ان کی اس حرکت کو دیکھ رہا ہے۔‘

علی کہتے ہیں کہ انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا: ’مجھے اس میں کسی کو کوئی صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ میں نے ایک بات کی۔ آپ کو پسند آئی آپ اس پر عمل کریں اور جہیز کے لیے دونوں فریقین انکار کریں۔ آپ ایک خودمختار مرد بنیں۔ لوگ آپ کواپنی اتنی پیاری اور قیمتی بیٹی دے رہے ہیں۔ لکڑی کے فرش کا کیا ہے خود بنوا لیں، گاڑی کی کون سی بات ہے آپ خود خرید لیں۔‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’ہاں آپ ایک پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کریں کیونکہ ٹی وی تو خراب ہو جائے گا لیکن جو اچھی تعلیم ہے وہ آپ کی اگلی نسلوں تک جائے گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا