سوات: جہیز میں ساڑھے سات تولہ سونا دینے کی حد مقرر

سوات میں علما اور عمائدین کی جہیز ختم کرنے کی مہم، تعاون نہ کرنے والوں کے سوشل بائیکاٹ کا فیصلہ۔

2017 میں خیبر پختونخوا اسمبلی سے منظور ہونے والے ’جہیز بل‘ کے تحت شادی بیاہ میں جہیز پر مکمل پابندی لاگو ہے(پکسابے)

جہاں ایک جانب حال ہی میں باجوڑ میں خواتین پر ایف ایم ریڈیو میں کال نہ کرنے اور امدادی چیک کے لیے ورلڈ بینک کے قائم کردہ مراکز میں نہ جانے پر مقامی جرگے نے پابندی لگائی ہے، وہیں سوات میں ایک جرگے نے یکسر مختلف موضوعات کو لے کر فیصلہ کیا ہے کہ جہیز کی رسم ختم کرنے کے لیے سوات کے مختلف علاقوں میں آگاہی مہم چلائی جائے گی۔

قابل غور بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے باجوڑ میں جرگے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد جرگوں کی حیثیت ختم ہو گئی۔

تاہم سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایک علاقے میں جرگوں کو فیصلے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں تو دوسرے علاقے میں قائم جرگوں کے لیے حکومت کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ مزید یہ کہ اگر سماجی مسائل پر جرگوں کے فیصلوں کو حکومت نہیں مانتی تو اس ضمن میں وہ خود کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔

سوات کی تحصیل بریکوٹ میں ہونے والے ایک حالیہ جرگے میں عوام الناس پر زور دیا گیا کہ وہ علاقے سے جہیز کی فرسودہ رسم ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

’قومی جرگہ تحصیل بریکوٹ‘ کے رابطہ سیکرٹری ساجد علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو کہا کہ ان کے علاقے میں جہیز کی رسم ایک خطرناک شکل اختیار کرگئی ہے اور والدین اپنی بیٹیاں بیاہنے کے لیے بھاری قرضے لینے حتیٰ کہ اپنی جائیدادیں بیچنے پر مجبور ہیں۔

ساجد نے بتایا کہ اس مہم میں انہیں مقامی علمائے دین کی حمایت حاصل ہے، جنہوں نے مساجد میں اعلانات کے ذریعے مہم کا آغاز کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ جرگے کو  سوات کے دیگر علاقوں جیسے کبل، مٹہ اور چارباغ سے بھی درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جس میں ان سے گزارش کی گئی ہے کہ اس مہم کو ان کے علاقوں تک بھی پھیلایا جائے۔

’خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کے برعکس  سوات میں جہیز کی صورتحال یہ ہے کہ ایک متوسط گھرانے میں 20 تولے سے کم سونے کو باعث شرم تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے علاقے میں حال ہی میں دلہن کے خاندان نے 75 لاکھ نقد روپے جہیز میں دیے، لیکن بات 63 لاکھ پر جاکر بھی ختم نہیں ہوئی اور دونوں گھرانوں میں بدمزگی پیدا ہوئی۔‘

قومی جرگے کے مطابق انہوں نے زیادہ سے زیادہ سونے کی جیولری کی حد ساڑھے سات تولے مقرر کی ہے۔ مزید برآں اگر علاقے کے کسی خاندان نے جرگے کے فیصلے سے روگردانی کی تو ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔

جہیز کے بارے  قانون

پاکستان میں 1976 سے جہیز اور دلہن کو تحائف دینے کے حوالے سے قانون موجود ہے۔ علاوہ ازیں، سوشل میڈیا کے عروج کے بعد جب جہیز کے منفی اثرات پر بحث مباحثے شروع ہوئے تو اس حوالے سے قانون سازی پر بحث چھڑ گئی۔

بعد ازاں، 2017 میں خیبر پختونخوا اسمبلی نے ’جہیز بل‘ منظور کیا جس کو جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی راشدہ رفعت نے پیش کیا تھا۔ اس بل کے مطابق، شادی بیاہ میں جہیز پر مکمل پابندی لاگو کی گئی ہے، اور خلاف ورزی کی صورت میں تین ماہ قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔

2017 کے اس قانون کی تفصیلات کے مطابق، شادی بیاہ پر دس ہزار سے زائد رقم خرچ نہیں کی جائے گی جب کہ ولیمے کے اخراجات 75 ہزار روپے سے زائد نہیں ہوں گے۔ راشدہ رفعت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2017 میں منظور ہونے والے اس قانون پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں ہورہا ہے، لہذا وہ اس مسئلے کو آئندہ کچھ دنوں میں دوبارہ اسمبلی میں زیر بحث لائیں گی۔

سوات میں جہیز کے حوالے سے قومی جرگے کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے راشدہ رفعت نے بتایا، ’حکومت اپنی طاقت دکھانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ جرگوں کی جانب سے معاشرتی مسائل کے فیصلے آنا حکومت کی توہین ہے، لیکن اگر حکومت اس بات کو سمجھے تو۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ خود قوانین پر عمل درآمد کروائیں۔‘

2017 کے قانون کے  مطابق اگر جہیز بل کی خلاف ورزی کی گئی تو  نکاح اور رخصتی کے ایک  مہینے  کے اندر کلاس ون مجسٹریٹ کے دفتر میں تحریری شکایت درج کی جاسکتی ہے۔  اس بل کی رو سے شکایت کنندہ کے علاوہ ایک چشم دید گواہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اس موضوع پر حکومت کا موقف جاننے کے لیے جب  انڈپینڈنٹ اردو نے تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی عائشہ بانو سے سوال کیا کہ ’جہیز بل‘ پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا تو انہوں نے بتایا ’قانون موجود ہے لیکن اگر عوام خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف شکایت درج نہیں کریں گے تو حکومت کیا ایکشن لے گی۔ مسئلہ اس موضوع پر شعور کی کمی کا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2010 میں گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن کی جانب سے گیلپ پاکستان کے ذریعے ہونے والے ایک سروے کے مطابق، پاکستان کی کُل آبادی کے 84  فیصد لوگ جہیز کے حق میں ہیں، جب کہ 15 فیصد لوگ اس رسم کے خلاف ہیں۔

2014 میں اسی ادارے کی جانب سے ایک اور سروے سامنے آیا جس میں 53 فیصد پاکستانیوں نے خیال ظاہر کیا کہ ان کے معاشرے میں  جہیز کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ گیلانی  ریسرچ فاؤنڈیشن سروے کے مطابق 69 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ جہیز کے بغیر ایک لڑکی کی شادی نہیں ہو سکتی، جب کہ دو فیصد لوگوں کے مطابق جہیز شادی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔

جماعت اسلامی کی  رکن صوبائی اسمبلی راشدہ رفعت کا کہنا ہے کہ جہیز کی وجہ سے اکثر خاندانوں کو پریشان کن حالات کا سامنا رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو جہیز کی استطاعت نہیں رکھتے ، لہذا ایک یونیفارم حکومتی پالیسی  ہی ان سماجی مسائل کو ختم کر سکتی ہے۔

پشتونوں میں جرگوں کو زمانہ قدیم سے کافی اہمیت حاصل رہی ہے اور اسی تناظر میں خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں  آج بھی سماجی مسائل پر فیصلے جرگوں میں طے پاتے ہیں۔

ضلع سوات  میں یوسفزئی ریاست کے وقتوں سے  سماجی مسائل پر جرگوں کو اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ مکین سوات کے مطابق، قانونی پیچیدگیوں اور انصاف کی حصولی میں تاخیر کے باعث  وہاں کے لوگوں کا جرگہ سسٹم اور ان کے فیصلوں پر دارومدار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان