آن لائن تعلیم بچوں کی عیاشی نہیں امتحان ہے!

بیڈ روم سونے کے لیے ہوتا ہے، کون سوچ سکتا ہے کہ آنکھ کھلتے ہی روز اسی میں بیس تیس بندوں سے ملاقات کرنی پڑے گی؟

میں پہلے دن سے اس حق میں ہوں کہ بچے کو پرچہ دیتے ہوئے نقل کی سہولت ملنی چاہیے(اے ایف پی)

صبح اٹھتے ہی آپ کو شدید بھوک لگی ہو اور آپ ساتھ پڑا ہوا رات کا سینڈوچ کھا لیں، لیکن اس میں صرف ریت بھری ہو، کرچ کرچ کرچ!

یہ ہوتی ہے زوم کلاس۔ ایسا لگتا ہے جیسے بیڈروم میں اچانک دشمن کی فوجوں نے یلغار کر دی ہے۔ ابھی آنکھیں پوری کھلی نہیں، منہ نہیں دھویا، دانت میلے ہیں، ہاتھ پیر نیند کے نشے میں ہیں، کمر کہتی ہے کوئی چھیڑے نہ، کانوں کو پڑوس میں دھلتے فرش کی آواز بھی زہر لگ رہی ہوتی ہے مگر ۔۔۔ کلاس تو لینی ہے۔

سکول کالج جانے کا ایک ڈیکورم ہوتا تھا۔ آپ صبح سویرے اٹھتے تھے، ناشتہ، نہانا دھونا، کپڑے استری والے، صاف جوتے، پورا بیگ لٹکا ہوا، مطلب فل تیاری کے ساتھ بندہ جاتا تھا۔ ادھر کیا ہے سوائے بستر میں لیٹے ایک بٹن دبانے کے، اور وہ بھی نہ چاہتے ہوئے! بیڈ روم سونے کے لیے ہوتا ہے، کون سوچ سکتا ہے کہ آنکھ کھلتے ہی روز اسی میں بیس تیس بندوں سے ملاقات کرنی پڑے گی۔

ہمیں لگتا ہے بچوں کی بڑی عیاشی لگی ہوئی ہے، نہ صبح اٹھنا، نہ سکول جانا، نہ کوئی تیاری، نہ کوئی ٹیسٹ، نقل کرتے ہوں گے، کلاس لیتے ہوئے سوشل میڈیا پہ گھومتے رہتے ہوں گے، مٹی تے سواہ! کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ بھائی عیش تو دور کی بات ہے ادھر بندہ ٹھیک طرح پڑھ بھی گیا تو اس نے سمجھیں کے ٹو چڑھ لی۔

آپ کو اندازہ بھی ہے کیسے کیسے میسنے ٹیچر ہوتے ہیں؟ پڑھانے سے زیادہ انہیں فکر ہوتی ہے کہ بچوں کو حاضر کیسے رکھا جائے۔ ماما توں پڑھا تے جان آلی کر، نئیں، باقاعدہ  سوال کریں گے، نام لے لے کر پوچھیں گے، جواب دینے کے بعد آپ کو ذرا آسرا ہوا نہیں انہوں نے اگلا سوال داغ دینا ہے۔ ان کے خیال میں یہ واجب ہے کہ جو کلاس میں آ چکا ہے اسے کہیں بھول کے بھی اونگھ نہ آ جائے۔

ہمارے زمانے میں بیک بینچر ہوا کرتے تھے۔ پیچھے بیٹھنے والے وہ سب جو کلاس سے زیادہ جہاز بنانے اور دیگر غیر معصوم سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے تھے۔ ادھر کیا ہوتا ہے، جس کا کیمرہ آف ہے وہ سمجھیں بیک بینچر ہے۔ کالج، یونیوسٹیوں کی آن لائن کلاس میں بہرحال کیمرہ آف رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے اور یہ عین انسانی آپشن ہے۔ یار صبح اٹھ کے منہ کتنا منحوس ہوتا ہے ہر بندے کو اپنا خود اندازہ ہے۔ کون اسے سکرین پہ سجانا چاہے گا؟

نہیں بھائی! یہ بات وہ بندہ کیوں مانے گا جو ایک گھنٹہ پہلے اٹھ کر صرف آپ کو پڑھانے کے لیے منہ چمکا کر آیا ہے۔ نیچے چاہے پاجامہ پہنا ہو، اوپر کوٹ چڑھا کے بیٹھا ہے۔ اس کا تو فرض ہے آپ کا جینا حرام کرنا، آپ کریں نا کیمرہ آف، وہ وہ سوال آئیں گے کہ بندہ تنگ آ کے اسی حلیے میں کیمرہ کھول دے گا۔ تم دیکھ لو، تسلی ہو جائے تمہاری، ہم کم اچھے ہی ٹھیک ہیں!

ہاں، خدا کے بعض نیک بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ککھ نئیں پروا کہ سو کون رہا ہے، جاگتا کون ہے، کیمرہ کدھر چالو ہے کدھر بندہ، کوئی جواب دے رہا ہے یا نہیں، وہ بے غم ہوتے ہیں۔ انہوں نے گھڑی دیکھ کے ٹائم پورا کرنا ہے اور سلام علیکم۔

ان لائن پڑھائی میں جو سب سے تکلیف دہ بات ہے وہ یہ کہ جس دن آپ کا پورا موڈ ہو گا پڑھنے کا، یعنی آپ اچھے لگ رہے ہوں گے، ٹاپک پسند کا ہو گا، کیمرہ کھول کے ذرا ایکٹیو ڈسکشن کا موڈ ہو گا، اس دن لائٹ چلی جائے گی۔ ایک تو موبائل ڈیٹا اوپر سے کلاس بھی لیپ ٹاپ کی بجائے موبائل پر ۔۔۔ نہ کچھ سمجھ آئے گی، نہ تمیز سے کیمرہ کھول سکیں گے اور نہ بیٹھنے کا تمیزدار کوئی پوز بنے گا۔

پھر دل میں بندہ حساب بھی لگا رہا ہو گا کہ استاد جتنا ڈیٹا لگ رہا ہے یہ ایک کلاس ہی ڈھائی سو روپے کی پڑ جانی ہے۔ خیر، اللہ کی مرضی۔ یہ تو سو فیصد ہونا ہے۔ آپ کا موڈ ہو، شکل اچھی لگ رہی ہو، ماحول پورا ہو اور لائٹ بھی نہ جائے۔ واہ وا! ایسے کیسے؟

عقل والوں کے لیے اس میں بھی خاص نشانیاں ہیں۔ سوچیں کہ جن سکول کالجوں نے کیمپس کے اندر موبائل لانا حرام کیا ہوا تھا اب جو وقت پڑا ہے تو پورا سکول خود چل کر موبائل کے اندر آ گیا۔ کدھر بچوں کے موبائل بستے سے نکال کے ضبط ہوتے تھے اور کہاں اب باقاعدہ امیاں رات کو بولتی ہیں کہ بیٹا موبائل چارج کر کے سونا، صبح کلاس ہے۔ مطلب حد ہے۔

کم از کم اب کلاسیں جب بالکل ریگولر ہو جائیں اور یہ کرونا شرونا مک جائے تو سکول والوں کو بچے کے موبائل پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ وہ زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے؟ اماں ابا سے رابطہ بھی تو اسی پہ رہتا ہے یار چھٹی ٹائم، من لئو گل ظالم سکول آلو!

سب سے بڑا مسئلہ آن لائن کلاس میں پوسچر کا ہے۔ آپ کس طرح بیٹھ سکتے ہیں سیدھے ہو کر جب آپ اپنے بیڈ پر لیٹے ہوں؟ یا چلیں بہت کر لیا تو بندہ لاونج میں صوفے پہ بیٹھ جائے گا۔

مصنوعی سنجیدہ چہرہ لے کر پانچ چھ گھنٹے کیمرے کے سامنے ٹیڑھے میڑھے ہو کر بیٹھنا عذاب الہی ہے۔ سکول کالج میں کرسی میز ہوتی ہے، بیٹھ جاتے ہیں، اٹھ جاتے ہیں۔ پورا ماحول ہوتا ہے، بندہ چلتا پھرتا ہے، لوگوں سے بات ہوتی ہے، ادھر کیا ہے، بابا جی کا الو، وہ بھی اکیلا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپ کو فیثا غورث کے مسئلے کوئی آن لائن پڑھاتا تو کیا آپ کو سمجھ آنے تھے؟ ویسے بھی نہیں آئے وہ الگ بات ہے لیکن رٹا تو لگا لیا نا یار میٹرک میں؟ ابھی کیسے کریں یہ بچے؟ فزکس ہے، کیمسٹری ہے، اکنامکس ہے، لائیو سمجھنا سو گنا آسان ہے۔ ساتھ ساتھ ٹیچر پریکٹس کرائے جاتے ہیں کام آسان ہو جاتا ہے۔

سمجھیں بات کو، یہ آن لائن کلاس جسے ہم بچوں کی موج سمجھ رہے ہیں ان کے لیے اس سے بڑی ٹینشن کوئی نہیں۔ ابھی اکثر سکول کالج ادھ پچھتے کھلے ہیں۔ دو دن جانا ہے، تین دن آن لائن، پھر بھی کام چلتا ہے، سو فیصد آن لائن ۔۔۔ لاحول ولا!

سنجیدگی سے بات کروں تو آن لائن کلاس ایک نارمل بچے کو مکمل نفسیاتی بنانے کے لیے کافی ہے۔ گھر کی پرائیویسی میں کیمرہ اور چلتا ہوا مائک، ہر لمحے کا خوف ہے۔ کوئی پیچھے سے نہ گزر جائے، واش روم جانا ہے تو سب کچھ دیکھ کر آف کرو، کپڑے چینج کرنے ہیں، سبزی کاٹنی ہے، ناشتہ بنانا ہے، سامنے ایک آنکھ آپ کو گھور رہی ہے اور آپ کھڑے ہوئے ہیں۔

کمرے میں صبح صبح گھسی روبوٹک آوازیں کلاس ختم ہونے کے دو گھنٹے بعد بھی کانوں میں بجتی رہتی ہیں۔

پھر سو قسم کے نوٹیفیکیشن تڑپ تڑپ کے سامنے آ رہے ہوتے ہیں، جہاں توجہ ہٹی لیکچر چھوٹ گیا۔ تو ایسے میں دھیان لگانا واقعی مہاتما بدھ والا ارتکاز مانگتا ہے جو بچہ کدھر سے دے گا؟ آن لائن کلاس امتحان ہے ایک نارمل بچے کے لیے! مکمل تزکیہ نفس کا مجاہدہ!

اور امتحانوں سے یاد آیا کہ آن لائن پیپر میرے خیال میں بہترین آپشن ہے۔ میں پہلے دن سے اس حق میں ہوں کہ بچے کو پرچہ دیتے ہوئے نقل کی سہولت ملنی چاہیے۔ انسان طوطا نہیں ہے۔

آپ سوال ایسے پوچھ لیں جن میں کتابوں سے دیکھنے کے باوجود عقل استعمال کرنے کی گنجائش ہو مگر الف کر کے سوال نامہ اس کے سامنے مت رکھیں۔ الف مطلب نہتا، بے دست و پا سمجھ لیں یہاں، تو بچے کو آسرا بہرحال ہو کہ یار چلو کہیں نا کہیں سے کام چل جائے گا، اس کا دماغ خواہ مخواہ ٹینشن میں نہ ہو۔ آن لائن سسٹم میں واحد فائدہ یہ ہے کہ پیپر دیتے ہوئے شاید بچے کوئی گنجائش نکال سکیں، تو بس یہ موج ہے۔

انسان معاشرتی حیوان ہے، بچے ہمیں ویسے ہی ڈنگر لگتے ہیں، لیکن قسم سے وہ اس سسٹم میں آپ سے زیادہ تنگ ہیں۔ کبھی ان سے پوچھیں تو وہ آپ کو اور سو رنگ کے مسئلے بتائیں گے۔ خیر، دن او نئیں رئے تے جان آلے اے وی نئیں۔ رب راکھا!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ