جوہری معاہدے میں واپسی: امریکہ ایران سے بات چیت کے لیے تیار

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی سے ہٹتے ہوئے نئے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ اگر ایران جوہری معاہدے پر مکمل طور پر عمل کرتا ہے تو امریکہ معاہدے میں واپسی کے لیے تیار ہے۔

عرات کو امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ای تھری جس میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ہونے والی ایک ویڈیو کال میں یہ اعلان کیا۔ (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر نظرثانی اور دونوں ممالک کی اس معاہدے میں واپسی پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔

جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ای تھری جس میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ہونے والی ایک ویڈیو کال میں یہ اعلان کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران جوہری معاہدے پر مکمل طور پر عمل کرتا ہے تو امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ معاہدے میں واپسی کے لیے تیار ہے۔

ای تھری کے وزرائے خارجہ پیرس میں اس ملاقات کے لیے موجود تھے۔ اجلاس کے بعد چاروں ممالک کے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’اگر ایران معاہدے پر سختی سے عمل کرتے ہوئے واپس لوٹ آتا ہے تو امریکہ بھی ایسا ہی کرے گا اور ہم ایران سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔‘

ایران نے اس خیال پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ایران نے سال 2019 میں اس وقت اس معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کرنا شروع کی تھی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2018 میں یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکلتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔

ایک امریکی عہدیدار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ یورپی یونین کے کسی بھی ایسے اقدام پر مثبت رد عمل دے گا جس میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان بات چیت ہو جنہوں نے اس معاہدے پر مذاکرات کیے تھے۔ ان ممالک میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ شامل تھے۔ 

امریکی عہدیدار کا کہنا تھا: ’ہم ایسی کسی ملاقات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔‘

چاروں ممالک کے جاری کردہ اعلامیے پر رد عمل دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے امریکہ کو پہل کرنی چاہیے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنی ٹویٹ میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا: ’غلط دلائل اور ایران پر ذمہ داری ڈالنے کے بجائے، ای تھری/یورپی یونین کو اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے اور ٹرمپ دور کی یادگار ایران کے خلاف معاشی دہشت گردی کو ختم کرنا چاہیے۔ ہمارے جوابی اقدامات امریکی اور ای تھری کی خلاف ورزیوں کا رد عمل ہیں۔ اگر آپ کسی عمل سے خوف زدہ ہیں تو اس کی وجہ کو ختم کریں۔ ہم عمل کا جواب عمل سے دیں گے۔‘

جواد ظریف اس سے قبل امریکہ سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ اس معاہدے پر بات چیت کے لیے آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ 

امریکی عہدیدار نے اس بارے میں بھی اشارہ دیا کہ معاہدے میں واپسی پر پہل کے حوالے سے بھی طریقہ کار طے کیا جا سکتا ہے، جس میں امریکہ کی ایران پر پابندیوں میں نرمی اور ایران کی جوہری معاہدے میں طے کردہ حدود پر عمل جیسی شرائط شامل ہو سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ تہران نے بائیڈن انتظامیہ کے لیے اگلے ہفتے تک کی ڈیڈ لائن مقرر کر رکھی ہے کہ وہ سابق صدر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیوں کو ختم کرے یا ایران معاہدے کی خلاف ورزی میں ایک اور قدم آگے بڑھ جائے گا جس کے تحت اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو تنصیبات کی فوری نگرانی سے روکا جائے گا۔

امریکی انتظامیہ نے ایران کے سفارت کاروں پر عائد اس پابندی میں بھی نرمی کی پیش کش کی ہے جس کے تحت صدر ٹرمپ نے سال 2019 میں اقوام متحدہ کے لیے ایرانی مشنز اور سفارت کاروں پر پابندیاں عائد کر دیں تھی۔ 

امریکی حکام کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کا ایران سے کوئی رابطہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ایران کو ان پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے مطلع کر دیا گیا ہے۔ 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجے جانے والے ایک خط میں امریکہ نے صدر ٹرمپ کی اقوام متحدہ کے لیے جاری کردہ اس سمری کو بھی واپس لینے کا اعلان کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایران پر ستمبر سے دوبارہ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ