’منگو کوچوان‘ اور سینیٹ کے انتخابات

منٹو کو یہ افسانہ لکھے پون صدی ہو گئی مگر ہمارے ہاں اب تک وہی پرانا قانون چلا آ رہا ہے۔

 سینیٹ انتخابات کا میدان سج چکا ہے مگر سارے معاملے پر   تنازعات کے بادل چھائے ہیں(اے ایف پی)

آپ میں سے اگر کسی نے منٹو کا کا افسانہ ’نیا قانون‘ پڑھا ہو گا تو وہ اس افسانے کے مرکزی کردار ’استاد منگو‘ سے ضرور واقف ہوں گے۔ استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک کوچوان تھا اور چھاﺅنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے اسی وجہ سے وہ ہندوﺅں اورمسلمانوں کے درمیان فساد کو اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آ جائے گا۔

ایک روز استاد منگو نے دو سواریوں سے سنا کہ ملک میں نیا قانون آنے والا ہے، اب ہر چیز بدل جائے گی۔ بس پھر کیا تھا وہ زور سے ہاتھ ہلا ہلا کر کر نئے قانون سے متعلق اپنے دوستوں سے بحث کرتا اور انہیں یقین دلاتا کہ یہ نیا قانون ہندوستان کی قسمت بدل دے گا۔

سینیٹ کے انتخابات ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہے ہیں لیکن یہ انتخابات ہر دور میں اہم رہے ہیں۔ ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرنے سے اقتدار میں موجود جماعت کو قانون سازی میں آسانی رہتی ہے۔ یوں تو پاکستان میں توجہ کا مرکز قومی اسمبلی رہتی ہے لیکن سینیٹ کو اس کے انتخابات کے دوران خاص توجہ حاصل ہوجاتی ہے۔

اس مرتبہ بھی سینیٹ کا میدان سج چکا ہے۔ حکومتی جماعتوں، اتحادیوں اور اپوزیشن نے اپنی بھرپور تیاری کر رکھی ہے لیکن اس تیاری کے ساتھ ساتھ ہمیں روایت کے عین مطابق کچھ غیر پارلیمانی الفاظوں کااستعمال جیسے کہ ’منڈی،‘ ’بکاﺅ‘ اور ’تعلقات‘ کے دباﺅ جیسے استعمال آزادانہ نظر آ رہا ہے۔

یہ غالباً 2003 کی بات ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے اس وقت کھلبلی مچا دی تھی جب انہوں نے سینیٹ کے انتخابات کے لیے دی جانے والی رقم واپس کر دی تھی۔ یوں تو سینیٹ انتخابات کا مرحلہ پاکستان بھر کے لیے افواہوں اور قیاس آرائیوں پرمبنی ہوتا ہے لیکن بلوچستان میں صورت حال اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتی ہے جب دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی کاروباری وابستگیوں سے اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور عوام کو یہ ایک عام تاثر جاتا ہے کہ بلوچستان کو دی گئی نشستوں پر بولیاں صرف بلوچستان ہی سے نہیں دوسرے صوبوں سے بھی لگائی جاتی ہیں۔

یہ معاملات اس وقت ایک عجیب موڑ پر آ گئے جب پہلے بلوچستان سے حکومتی جماعت ’باپ‘ پارٹی نے اپنی جماعت سے ایک غیر معروف کاروباری شخصیت عبدالقادر صاحب کو جنرل سیٹ سے ٹکٹ جاری کیا۔ سب حیران پریشان رہ گئے کہ یہ موصوف کون ہیں۔ خود باپ پارٹی کے اکثر رہنما ہکا بکا تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا، محترم کو تحریک انصاف نے اپنا حصہ تسلیم کرتے ہوئے ٹکٹ جاری کر دیا، جب اسد عمر سمیت کئی دیگر اہم رہنماﺅں نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا، جس پر تحریک انصاف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

سننے میں آیا ہے کہ تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سرداریارمحمد رند نے اس پر خوب شور مچایا خیر اب سننے میں آیا ہے کہ موصوف ان دونوں پارٹیوں سے تنگ آ کر ’آزاد‘ حیثیت سے ایک بارپھر کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں۔

ہم امید رکھتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات سے ملک بھر میں صوبوں کو یکساں نمائندگی دی جائے گی اور جو صوبے پسماندگی کاشکار ہیں وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنی آواز کو قانون سازی کاحصہ بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

ان کی امید اس وقت مزید مایوسی کاشکار ہوتی نظرآتی ہیں جب خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک رہنے والی سینیٹر صاحبہ ستارہ ایاز کو ’باپ‘ پارٹی ٹکٹ جاری کرتی ہے اور پارٹی سے منسلک تمام لوگوں کی امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے جو سمجھتے تھے کہ پارٹیوں میں مقام جدوجہد سے حاصل کیا جاتا ہے۔

جب ’باپ‘ پارٹی بلوچستان کے موجودہ سینیٹر سرفراز بگٹی صاحب سے اس پر ان کی رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ آئین اور قانون سے منحرف اقدام نہیں محترمہ کاتعلق اب عوامی نیشنل پارٹی سے نہیں ہے اور کے پی کے پاکستان ہی کا حصہ ہے تو ہماری پارٹی اس وقت خود کو صرف بلوچستان کی حد تک محدود نہیں کرناچاہتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی سیاسی  محرکات کے پیش نظر سینیٹ انتخابات کے نتائج انتہائی دلچسپ ہوں گے۔ اس وقت حکمران اتحاد کے 41 ارکان ہیں اور حزب اختلاف کے 65 ارکان کی صوبائی اسمبلی میں 24 ارکان ہیں۔

سینیٹ کی 12 انتخابی نشستیں دو ممکنہ منظرناموں میں حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کے ذریعہ مختلف تناسب سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ دونوں منظرنامے اس قیاس پر مبنی ہیں کہ سیاسی نظم و ضبط میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں آئے گی ، 2018 کے انتخابات کے برعکس جہاں مسلم لیگ ن کے اکثریتی اراکین نے راتوں رات بی اے پی کی تشکیل اختیار کی۔

امید ہے کہ اس منظر نامے میں حکمران اتحاد سینیٹ کی آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گا اور چار حزب اختلاف میں جائیں گے۔ بی اے پی سے چھ ، پی ٹی آئی اور اے این پی کو ایک ایک جیتنے کی امید ہو گی۔ امید کی جا سکتی ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے بی این پی مینگل اور جے یو آئی ایف دونوں کو دو سیٹیں حاصل ہوں گی۔ بی اے پی کی زیر قیادت حکومت کے لیے یہ ایک مثالی منظر نامہ ہو گا۔

اس وقت ہمیں2009 میں پہلی بار سینیٹرمنتخب ہونے والے نیشنل پارٹی کے اہم رہنما حاصل بزنجو مرحوم کے وہ الفاظ یاد کررہے ہیں کہ جو جولائی2019 میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے متحدہ چیئرمین کے طور پر متفقہ طور پر امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔

اس عدم اعتماد کی تحریک کو 103 میں سے 67 ارکان کی حمایت حاصل تھی جس کے بعد موجودہ چیئرمین کا اپنے منصب سے ہٹنا یقینی تھا لیکن اس کے باوجود خفیہ ووٹنگ کے مطلوبہ ووٹوں سے انہیں کم ووٹ ملے اور انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’آج کون جیتا‘ اور ارکان کی خرید و فروخت اور ضمیر فروشی کے اعتبار سے اس دن کو پاکستان کی پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن کہا جائے گا۔

گو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول خود عمران خان نے خود ان انتخابات کو پیسہ بنانے کی منڈی قرار دیا ہے، وہاں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان کو سینیٹ میں نمائندگی کے کیا خاطرخواہ نتائج نظر آئے جہاں عثمان کاکڑ، جہانزیب جمال دینی اور کہرشہی جیسے دیگر سینیٹر بلوچستان کی آواز بنتے نظرآئے وہاں بہت سے سینیٹرصرف اسلام آباد میں قیام اور مراعات تک محدود ہی نظرآئے۔

بہرحال ہم منٹو کے افسانے ’نیا قانون‘ کے مرکزی کردار ’منگوکوچوان‘ کی بات کر رہے تھے جو فسانے کے آخر میں ایک گورے  کو اس وجہ سے پیٹتا رہا اور چلاتا رہا کہ ’وہ دن گزر گئے اب نیا قانون ہے میاں۔۔۔‘ اور پولیس کے سپاہی آتے  ہیں اور اسے تھانے لے جاتے ہوئے جواب دیا کہ کیا بک رہے ہو۔۔۔ قانون وہی ہے۔ اب بھلا ان نگرانوں کی نگرانی کون کرے گا کیونکہ ہمارے یہاں قانون بھی وہی ہے اور حالات بھی وہی۔۔۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ