’کیا آپ انڈیا سے آئی ہیں؟‘ پشاور میں گزرے پانچ گھنٹے

پشاور کے اپنے پہلے سفر کے دوران ہم نے اندرون شہر کی ایک جھلک دیکھنے کے ساتھ ساتھ شاپنگ مالز جیسی جدید عمارتوں کا بھی ایک جائزہ لیا، ہاں لیکن ’چرسی تکہ‘ نہ کھا سکے، جس کا قلق رہے گا، لیکن چلیں پھر کبھی سہی۔۔۔

اشرف روڈ پر واقع آرائشی اشیا کی ایک  دکان۔ تصویر: سوزینا مسیح

اگر بازار میں چلتے پھرتے آپ سے کوئی یہ سوال کرے کہ ’کیا آپ انڈیا سے آئی ہیں؟‘ تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ شاید آپ حیرت سے یہ سوال کریں کہ کیوں بھئی کیا میرے چہرے پر ’را‘ ایجنٹ کا مونوگرام نظر آ رہا ہے؟ لیکن اندرون پشاور کی گلیوں میں جب میرے ساتھ موجود دفتر کی ساتھی سے دو تین مرتبہ یہ سوال کیا گیا تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا واقعی ہم ’خلائی مخلوق‘ لگ رہے ہیں؟

سر پر دوپٹے اور لمبی قمیضیں پہنے ہم نے اپنے حلیے کا دوبارہ سے جائزہ لیا، ہمیں تو کچھ عجیب نہیں لگا، ہاں شاید میری ساتھی کے ہاتھ میں موجود ڈی ایس ایل آر کیمرا اور ہمارا اردگرد کی عمارتوں کی تصاویر بنانا ہمیں کچھ عجیب بنا رہا ہو گا۔

یہ صورتحال دیکھ کر میرے ذہن میں پشاور کے حوالے سے بچپن سے قائم ’علاقہ غیر‘ کا تصور ابھر آیا۔ آبا و اجداد کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہونے کے باوجود مجھے کبھی بھی پشاور جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، لیکن گذشتہ دنوں یہ موقع ملا اور وہ بھی محض چند گھنٹوں کے لیے۔

میرے ہمراہ میرے دفتر کی ایک ساتھی اور ایک دوست بھی تھیں۔ ہم تینوں نے ٹکٹ خریدا اور دن 12 بجے کے لگ بھگ ہائی ایس میں سوار ہو کر اسلام آباد سے پشاور کے لیے روانہ ہوگئے۔ دوران سفر اُس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب شٹل کاک برقعے میں ملبوس ایک ضعیف خاتون نے ہم سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن نہ تو انہیں اردو آتی تھی اور نہ ہی ہمیں پشتو، لہٰذا اپنی زبان میں ان سے بات کرکے، جو کہ انہیں بالکل بھی سمجھ نہیں آئی، میں نے بس مسکراہٹ کا تبادلہ کیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی، لیکن دل میں ایک تجسس سا ضرور تھا کہ نہ جانے وہ آنٹی کیا کہنا چاہ رہی تھیں؟ ’مجھے پشتو سیکھنی چاہیے‘، دل میں یہ خواہش شدت سے ابھری۔

سہ پہر تین بجے کے قریب ہم پشاور پہنچے۔ یہاں سے میری دوست کے راستے ہم سے الگ ہوگئے، اب ہمیں ’سیٹھی محلہ‘ جانا تھا، جہاں واقع ایک گھر کو محکمہ  آثارِ قدیمہ نے میوزیم کا درجہ دے رکھا ہے۔

ہمارے آس پاس کئی رکشے والے موجود تھے، لیکن ان میں سے کسی کو بھی سیٹھی محلے کے بارے میں نہیں پتہ تھا، لہٰذا ہم نے ’حضرتِ گوگل‘ کی خدمات لیں اور میری ساتھی نے نقشے کی مدد سے پتہ چلا لیا کہ یہ محلہ دراصل گھنٹہ گھر کے آس پاس واقع ہے۔ ہم نے فوراً ’کریم‘ بلوائی اور روانہ ہو گئے اپنی منزل کی طرف۔ چونکہ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے، لہٰذا اپنے کریم کیپٹن سے ہم نے پہلا سوال یہی کیا کہ ’بھائی گھنٹہ گھر کے پاس کوئی کھانے پینے کی جگہ ہے؟‘ ہمارے کیپٹن نے ہمیں کافی تسلی بخش جواب دیا۔

بس اڈے سے گھنٹہ گھر کے سفر کے دوران مجھے عمارتوں اور پُلوں وغیرہ کے سٹرکچر کے حوالے سے پشاور اور کراچی میں بہت مماثلت نظر آئی۔ وہی دھول مٹی سے اٹی فضا، کچھ عرصہ اسلام آباد جیسے پرفضا شہر میں رہنے کی وجہ سے ہم اپنے شہر کراچی کی فضا کو بھولنے لگے تھے، لیکن پشاور آکر کم از کم اس لحاظ سے ’اپنائیت‘ کا احساس ہوا کہ کراچی آلودگی کے معاملے میں اکیلا نہیں ہے۔ ہاں لیکن اردگرد خواتین کی تعداد بہت کم تھی۔ اس بات کا اندازہ تو مجھے تھا ہی لیکن اب آنکھوں سے بھی دیکھ لیا۔

مختلف مقامات اور سڑکوں سے گزر کر ہم چوک یادگار کے برابر میں موجود اشرف روڈ پر آگئے، یہاں سے بالکل سامنے گھنٹہ گھر نظر آرہا تھا۔ تنگ سی سڑک پر گاڑیوں، رکشوں اور موٹرسائیکلوں کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے والوں کا بھی ہجوم تھا، لہذا ہم وہیں اتر گئے۔ میری ساتھی نے مختلف زاویوں سے گھنٹہ گھر کی تصاویر لینا شروع کیں اور میں نے اردگرد کا جائزہ۔ یہ اندرون پشاور کی ایک مصروف اور روایتی سی سڑک تھی، ہمارے دونوں اطراف ہر طرح کی دکانوں کی بھرمار تھی، کہیں مچھلی فروخت ہو رہی تھی، کہیں پھل، تو کہیں نان والے کی دکان کے باہر خواتین کی بھیڑ تھی، جو کسی صاحب ثروت کی جانب سے ادائیگی کے بعد وہاں سے ایک وقت کا کھانا حاصل کرنے کی آس میں جمع تھیں۔

ہم اپنے کام میں مگن تھے اور برابر سے پیدل اور گاڑیوں میں گزرنے والے لوگ ہمیں گھورنے میں۔ کیمرا دیکھ کر تو ویسے ہی ’فرمائشی فوٹو‘ کھنچوانے والے سامنے آجاتے ہیں۔ اسی دوران برابر سے گزرتے ایک رکشے والے نے بھی گزرتے گزرتے آواز لگائی، ’ایک فوٹو ہمارا بھی کھینچو نا‘، جس پر میری ساتھی نے اسے گھور کر دیکھا اور وہاں سے ٹلنے کا اشارہ کر ڈالا۔

خیر گھنٹہ گھر کی تصاویر بھی ہو گئیں، اب ہم نے گوگل میپ پر محلہ سیٹھی جانے والا راستہ تلاش کیا، لیکن ہم بھٹک کر اسی سے ملحقہ شاہین بازار کی تنگ تنگ سی گلیوں میں آنکلے۔ ’ارے واہ، اتنی ساری خواتین!‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔  یہاں پر یہ محاورہ یا کہاوت بالکل صادق آتی نظر آئی کہ ’خواتین اور شاپنگ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔‘ اس بازار میں ہمیں زرق برق ملبوسات، جوتے اور مصنوعی زیورات خریدتی بہت سی خواتین نظر آئیں۔

اس بازار سے باہر نکلے تو گلی میں ہمیں ایک بریانی کی دکان نظر آئی، جسے دیکھ کر ہمیں یاد آیا کہ ہم نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا۔ چار بج رہے تھے اور ہمیں سیٹھی ہاؤس بھی جانا تھا، لہذا یہی فیصلہ کیا کہ کوئی ’فینسی سا‘ ریسٹورنٹ ڈھونڈنے کے بجائے یہیں سے پیٹ پوجا کرلی جائے اور پھر بعد میں ’چرسی تکہ‘ کے بارے میں سوچا جائے، لیکن افسوس کہ ہم اس بارے میں محض سوچ ہی سکے۔

سیٹھی محلے کو جانے والی سڑک کو خیبر پختونخوا حکومت نے فوڈ سٹریٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ راستے کے دونوں اطراف ہمیں فینسی سٹریٹ لائٹس نظر آئیں جبکہ دکانوں، کلینکوں اور فرنیچر شورومز کی تختیاں بھی کافی سٹائلش سی تھیں۔

اور آخرکار ہم سیٹھی محلہ جانے والی گلی میں پہنچ گئے۔ ہمارے دائیں طرف مسجد تھی۔ تھوڑا آگے جا کر ایسا معلوم ہوا کہ گلی کا اختتام ہو گیا ہے، لیکن درحقیقت آگے ایک مزید تنگ سی گلی تھی، جس سے صرف موٹرسائیکل ہی گزر سکتی تھی۔اس گلی میں دونوں طرف واقع قدیم نقش ونگار والے مکان دیکھتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے اور ساتھ میں خودکلامی بھی جاری تھی کہ ’اس محلے میں تو سارے ہی گھر قدیم ہیں، آخر سیٹھی ہاؤس کون سا ہے؟‘

سامنے سے آنے والے ایک نوعمر بچے نے شاید ہماری پریشانی بھانپ لی اور خود ہی رہنمائی کردی کہ ’وہ سامنے سیٹھی ہاؤس ہے لیکن دیکھ لیں، کہیں بند نہ ہوگیا ہو۔‘

ہم نے موبائل فون میں وقت دیکھا تو پانچ بج رہے تھے۔ میری ساتھی تو دیگر مکانوں کی تصاویر لینے میں مگن تھی، میں نے جاکر سیٹھی ہاؤس کا دروازہ بجایا۔ توقع کے مطابق ایک صاحب باہر نکلے اور کہا کہ ٹائم ختم ہو گیا ہے، لیکن ہماری درخواست پر وہ ہمیں ٹھہرنے کا اشارہ کرکے اندر چلے گئے اور کچھ دیر بعد آکر اندر آنے کی دعوت دی، جہاں ہماری ملاقات آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے مہتاب صاحب سے ہوئی، جو سیٹھی ہاؤس کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔

وقت ختم ہوجانے کے باوجود بھی مہتاب صاحب نے کمالِ مہربانی سے ہمیں پورا گھر دکھایا اور اس کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ واقعی یہ گھر فن تعمیر کا ایک شاہکار نمونہ ہے،  جہاں لکڑی، شیشے اور نقاشی کا بہترین کام دیکھ کر انسان اسے بنانے والوں کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

 

 تقریباً ایک گھنٹے بعد جب ہم سیٹھی ہاؤس سے باہر نکلے تو محلے کے بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ہدایت ملی، ’باجی، ذرا سا سائیڈ پہ ہو جاؤ، نہیں تو گیند لگ جائے گی‘ اور ہم نے فوراً ہدایت پر عمل کیا کیونکہ جان تو آخر سب کو پیاری ہوتی ہے۔

عین اُسی وقت وہاں ایک دلہا دلہن کی انٹری ہوئی، جو سیٹھی ہاؤس میں فوٹوشوٹ کے لیے آئے تھے، جب ہم اس محلے سے باہر نکل رہے تھے تو سامنے سے آتی ایک پولیس کی گاڑی ہمارے قریب رک گئی اور ایک افسر نے منہ باہر نکال کر پوچھا، ’آپ لوگ کدھر سے آئے ہیں؟‘، میرے دل میں آیا کہ پوچھوں کیوں ہم آپ کو غیرملکی لگ رہے ہیں کیا؟ لیکن اس کی بجائے میں نے جواب دیا، ’اسلام آباد سے،‘ جس پر وہ مطمئن ہو کر آگے چل پڑے۔

جب ہم سیٹھی محلے سے باہر نکلے تو اندھیرا ہوچکا تھا، لیکن فوڈ سٹریٹ کی لائٹیں ہنوز بند تھیں، ہم سڑک کنارے بنے ایک جوس کارنر میں جابیٹھے، یہاں پہلی مرتبہ ہم نے اندر سے سرخ رنگ کے مالٹے دیکھے۔ جوس بہت فرحت بخش تھے۔ کاؤنٹر پر موجود صاحب سے ہم نے پوچھا کہ سڑک پر لگی یہ فینسی لائٹیں کب جلتی ہیں؟ جواب ملا رات تک جل تو جاتی ہیں، لیکن آج پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے۔

یہاں سے ہم نکلے تو سوچا کہ مشہور زمانہ قصہ خوانی بازار بھی دیکھ لیا جائے کہ آخر وہاں ایسا کیا ہے۔ ایک ٹریفک سارجنٹ سے رہنمائی لینے کے بعد ہم مصالحوں، نسوار، خشک میوہ جات اور اسی طرح کی دیگر دکانوں سے لیس ایک پرہجوم بازار میں جاپہنچے، جہاں ماضی کے قصوں کا کوئی سراغ نظر نہیں آتا۔

 

سات بج رہے تھے اور ہمیں آٹھ بجے تک واپس اسلام آباد کے لیے بھی نکلنا تھا، وقت نہ ہونے کی وجہ سے ہم چرسی تکہ کھانے کے شرف سے تو محروم رہ ہی گئے تھے، سوچا کہ کیوں نہ جاتے جاتے پشاور کے کسی شاپنگ مال کا بھی چکر لگایا جائے۔ ہم نے ایک رکشے والے سے کہا کہ ہمیں شہر کے کسی بڑے مال تک پہنچا دیں۔ وہ ہمیں ’ڈینز پلازہ‘ لے گئے۔

باہر سے مال کو دیکھ کر میں اس سے تھوڑا متاثر ہوئی لیکن اندر جاکر اتنی ہی مایوسی ہوئی۔ پشاور میں شاپنگ مالز کا کچھ زیادہ تصور نہیں ہے۔ مال میں کسی مشہور برانڈ کی کوئی دکان نہیں تھی۔ دو فلورز پر لوکل دکانیں ضرور تھیں، جن میں خریدار نہ ہونے کے برابر تھے۔ مال کی لفٹ کو قریبی علاقے کے رہائشی بچے ’اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر‘ جانے والے کھیل کے طور پر استعمال کر رہے تھے، گراؤنڈ فلور پر موجود ہال کے سنگِ مرمر پر بھی ایسے ہی کچھ بچے پھسلتے ہوئے نظر آئے۔ طویل عرصے سے دہشت گردی سے متاثرہ اس شہر کے بچوں کے پاس واقعی تفریح کے کوئی زیادہ مواقع نہیں ہیں۔ پشاور کے اس سب سے بڑے شاپنگ مال کی ویرانی مجھے اس شہر کے بیتے دِنوں کا نوحہ پڑھتی نظر آئی۔ مجھے ویران جگہیں اداس کر دیتی ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا!

رات کا وقت تھا، ہم نے سوچا کچھ کھانے کو لے لیا جائے، ڈینز پلازا کے دوسرے فلور پر فوڈ کورٹ کے نام پر ہمیں محض دو، تین دکانیں نظر آئیں۔ جہاں چپس، بسکٹس کے علاوہ بس سموسے اور سینڈوچ ہی دستیاب تھے۔ ہم نے وہاں سے چپس خرید لیے۔

میری ساتھی نے ایک دکاندار سے واش روم کا راستہ پوچھا، ان کی بتائی ہوئی سمت پر جب ہم پہنچے تو وہاں لگے ایک نوٹس کے ذریعے معلوم ہوا کہ ’زنانہ بیت الخلا‘ کا وقت صبح آٹھ سے رات آٹھ بجے تک ہے، اُس وقت ساڑھے سات بجے تھے لیکن بیت الخلا کے دروازے پر بڑا سا تالہ ہمیں منہ چڑا رہا تھا۔

 

مال میں بہت ’گھوم پھر‘ لیا تھا، لہذا ہم نے کریم کی گاڑی منگوائی اور بس اڈے کی جانب روانہ ہو گئے، تاکہ اسلام آباد جانے والی گاڑی پکڑ سکیں۔ ٹکٹ کاؤنٹر پر بھی میری ساتھی کو دیکھ کر ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا، ’انہیں اردو آتی ہے؟‘ اور میں نے دل میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کا دکھ محسوس کرتے ہوئے سوچا کہ اپنا علاقہ، اپنا ہی ہوتا ہے، وہاں کم از کم آپ کو بار بار اپنی شناخت نہیں بتانی پڑتی۔

دس منٹ بعد بہت سی یادیں اور تجربات لیے ہم واپس اسلام آباد کی طرف گامزن تھے۔

اگلے دن دفتر میں پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھی کے سوال پر جب میں نے اپنے تجربات بیان کیے تو سننے کو ملا، ’آپ اصل پشاور تو گئی ہی نہیں، آپ بتاتی تو ہم کسی گائیڈ وغیرہ کا انتظام کر دیتے‘ اور میں نے سوچا کہ وہ شہر ہی کیا، جہاں کسی گائیڈ کی مدد لی جائے۔ مزہ تو تب ہے، جب خود سے مختلف جگہوں اور مقامات کو دریافت کیا جائے اور لوگوں کے رویوں کا جائزہ لیا جائے۔

اس کوشش میں ہم کافی حد تک کامیاب ہو بھی گئے اور اندرون پشاور کی ایک جھلک دیکھنے کے ساتھ ساتھ شاپنگ مالز جیسی جدید عمارتوں کا بھی ایک جائزہ لے لیا۔ ہاں لیکن ’چرسی تکہ‘ نہ کھا سکے، جس کا قلق رہے گا، لیکن چلیں پھر کبھی سہی۔۔۔ آخر پشاور بھی تو اپنا ہی شہر ہے!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ