بساط تو بچھی مگر آپ پیادے کیوں بنے؟

وہی سیاست دان جنہیں گلہ رہتا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ نے سارے جمہوری عمل کو غیر شفاف کر دیا۔ وہ ساتھ بیٹھ کر بھی اندر ہی اندر کتنی بےیقینی کا شکار رہتے ہیں، وہ کن انکھیوں سے نمبر گیم کا سکور پوچھتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان سینیٹ الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہوئے (اے ایف پی)

سینیٹ کا الیکشن کیا تھا یوں کہیے گھر کے عقبی دالان میں لگنے والی غلیظ کپڑوں کی لانڈری جیسے کسی نے گھر کے مرکزی دروازے پر دھونی شروع کر دی ہو۔

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

یہ قصہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب کچھ ہفتوں قبل وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایک حکومتی حلیف کو سینیٹ الیکشن سے قبل نصف ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کی ادائیگی کا معاملہ سپریم کورٹ نے اٹھایا۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر نے نوٹس لیا تھا۔

کیا حسن اتفاق ہے کہ ترقیاتی فنڈز جاری ہونے کی دیر تھی کہ سینیٹ الیکشن کے لیے پنجاب کا میدان بلامقابلہ ٹھنڈا ہوگیا۔

خیر سے وزیر اعظم کے خلاف ترقیاتی فنڈز کے مقدمے کا انجام تو ججز کی اندرونی سیاست کی نظر ہوا مگر یہ منادی ضرور ہوگئی تھی کہ بیوپاریوں تیار ہو جاؤ سینیٹ الیکشن کا بازار سج گیا ہے۔

سیاسی جوڑ توڑ تو الیکشن کے علاوہ بھی معمول کی سیاسی سرگرمی ہے اس کا سلسلہ تو اندر خانے کئی ماہ سے چل رہا تھا مگر وفاداریوں کی خرید و فروخت کا موسم تو سینیٹ الیکشن سیزن میں اپنے عروج پہ جا پہنچتا ہے۔

یاد ہے نا گذشتہ سینیٹ الیکشن سے پہلے زرداری صاحب نے بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ ’میاں صاحب میں آپ کو سینیٹ کی چیئرمین شپ نہیں لینے دوں گا‘ اور ایسا ہی ہوا تھا، نہیں لینے دی۔ مگر ایک اکثریتی جماعت ن لیگ کو الیکشن سے قبل ایسی پراعتماد تنبیہ کیسے دے دی گئی؟

کچھ ہفتوں پہلے گذشتہ سینیٹ الیکشن میں چلنے والی نوٹوں کی گڈیاں ایک ویڈیو میں دکھائی گئیں تھیں۔ اس بار کروڑوں روپے کے عوض وفاداری خریدنے کی بات بذریعہ ویڈیو، آڈیو، سکرین شاٹس وغیرہ سے سامنے لائی گئیں۔

جی کے جلانے کو بس اتنا جان لیں کہ جو بِک رہے تھے وہ بھی عوامی نمائندے تھے اور جو خرید رہے تھے وہ بھی سیاست دان۔ جو نوٹوں کی چند گڈیوں کے عوض سیاسی وفاداری بدلنے کو تیار بیٹھے تھے انہیں بھی عوام نے ایوان بھیجا تھا اور جو نوٹ دکھا دکھا کر ریجھا رہے تھے وہ بھی کہنے کو جمہوری کارکن تھے۔

وہی جمہوری کارکن جو وقت پڑے تو جمہوری نظام کے بیوپاری بن جاتے ہیں، جو سٹاک ایکسچینج کے کسی بروکر کی طرح فون پر ایک ووٹ کے دام گراتے اور بڑھاتے ہیں۔ پھر جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگا کر کہتے ہیں آمریت نے پنپنے نہیں دیا۔

وہی سیاست دان جنہیں گلہ رہتا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ نے سارے جمہوری عمل کو غیر شفاف کر دیا۔ وہ ساتھ بیٹھ کر بھی اندر ہی اندر کتنی بےیقینی کا شکار رہتے ہیں، وہ کن انکھیوں سے نمبر گیم کا سکور پوچھتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان جن کی پارٹی خود کو سیاسی زاہدوں کا مقدس ٹولہ گردانتی ہے، وہ بھی آزمائش کے اس وقت میں پارٹی کے اچھے اور گندے انڈے اپنے پروں میں چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔

خان صاحب کو سینیٹ الیکشن کی آڑ میں پارٹی کے کس کس رکن اسمبلی نے آنکھ دکھائی، کون ایک ڈنر پہ مان گیا اور کون بہت کچھ منوا کر سیدھے منہ بات کرنے پر بمشکل راضی ہوا؟ یہ تو ترقیاتی فنڈز کی فہرستیں ہی بتا سکتی ہیں۔

فرض کریں، شک کریں یا یقین رکھیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے درپردہ سینیٹ الیکشن کی ڈوریں اپنے ہاتھ میں رکھیں، تو کٹھ پتلی کون بنا؟

وہ تو بھئی سلیکٹر ہیں تو پھر ان کی ابرو کے اشاروں پہ کون ناچا؟

 بساط بچھا کر کھیل رچانے والے مان لیا کہ وہی ہیں، تو پیادہ کون بنا؟

وہ کیا جانیں کہ عوام کے ووٹوں سے بنی اسمبلیوں اور اس کے اراکین کی تقدیس کیا شے ہے، مگر اس عزت کو بیچ بازار کون لایا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہوگیا الیکشن، ہوگئے سب بھاؤ تاؤ، وفاداریوں کو بھی باہر کا راستہ دکھا دیا۔ اب یہ سینیٹرز اور اراکین اسمبلی مل کر قانون بنائیں گے کہ رشوت لینے کی سزا کیا ہوگی، چور کے ہاتھ کیوں نہ کاٹے جائیں۔

پاکستانی عوام کی پیٹھ پر لادی گئی یہ اسمبلیاں سینیٹ الیکشن سے قبل لاتوں گھونسوں مکوں سے چلتی نظر آئیں۔ پھر یہ ارکان لیکچر دیتے ہیں کہ ملک کی خاطر اختلافات بھلانا کیا ہوتا ہے۔

یاد رکھیے گا یہ وہی عوامی نمائندے ہیں جو بکنے کو تیار تھے۔ ابھی ذرا کوئی سیاسی جلسہ ہو لینے دیں پھر دیکھیں کیسے اچھل اچھل کر یہ بہروپیے لعنت بھیجیں گے جمہوریت نگلنے والے جِن پر اور اس کے اگلوں پچھلوں پر۔

سینیٹ الیکشن میں اس بار بھی وہی ہوا جو برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے، کبھی کسی سیاست دان کے ڈرائنگ روم میں اور کبھی کسی کے جہاز میں۔ مگر کیا ووٹوں کی مارکیٹ لگنے کا یہ سلسلہ کبھی بند ہو پائے گا۔

خفیہ رائے شماری کے خلاف صدارتی ریفرنس آیا مگر حکومت نے بوجھ سپریم کورٹ کے کندھوں پر ڈال دیا۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس بڑے تگڑے دیئے مگر  عدالت نے شفاف الیکشن کرانے اور نیا میکینزم بنانے کا کہہ کر بوجھ الیکشن کمیشن کے کندھوں پر ڈالا اور نچیت ہوگئی۔

الیکشن کمیشن نے سارا بوجھ ایک ہی پریس ریلیز سے جھٹک کر پرے کیا کہ  سینیٹ الیکشن میں وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اس لیے فی الحال تو انتخابات ہو جانے دیں۔ کمیٹی  بنا دی ہے اگلے الیکشن تک وہ کچھ نہ کچھ دیکھ لے گی۔

اگر تو جمہوریت کی عزت رکھنی ہے اور انتخاب جیسے جمہوری عمل پر عوام کا اعتماد قائم کرنا مقصود ہے تو ٹوئٹر پر الیکشن کمیشن کو فقرے کسنا کافی نہیں، ساری جماعتوں کو مل کر الیکشن ریفارمز لانے کی سعی کرنا ہوگی۔

جب تک کہ الیکشن کے عمل سے خلائی مخلوق، بیوپاری سیاست دانوں، نوٹوں سے بھرے بریف کیسوں کا راستہ نہیں روکا جاتا تب تک الیکشن کمیشن کی تین رکنی کمیٹی کچھ اکھاڑ سکتی ہے نہ ہی سائنس دانوں کی کوئی ٹیم ٹیکنالوجی ایجاد کرسکتی ہے، رہ جاتے ہیں تو بس دھاندلی کے الزام اور ایک الہ دین کا چراغ، جو ہم تہتر برسوں سے رگڑ رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ